Advertisement
Advertisement
Advertisement

ایک مقدمہ سننے سے کیوں اتنی پریشانی ہوگئی بینچ سے کیس ہی منتقل کردیا گیا؟ سپریم کورٹ

Now Reading:

ایک مقدمہ سننے سے کیوں اتنی پریشانی ہوگئی بینچ سے کیس ہی منتقل کردیا گیا؟ سپریم کورٹ

جی ایچ کیو حملہ کیس میں التواء مانگنے پر سپریم کورٹ پنجاب حکومت پر برہم

اسلام آباد: بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک مقدمہ سننے سے اتنی پریشانی کیوں ہو گئی کہ بینچ سے کیس ہی منتقل کر دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عدالت نے سوال کیا کہ بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار نے بتایا کہ یہ کیس آئینی بنچ کا تھا غلطی سے ریگولربینچ میں لگ گیا تھا۔

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کیساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا، پتہ نہیں مجھے اس بینچ میں شامل کرنا غلطی تھی کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ رجسٹرار نے بتایا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔

Advertisement

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے۔

عدالت نے کہا کہ ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا، رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ عدالت میں پیش کیا، تاہم رجسٹرار آفس کو نوٹ رجسٹرار کے مؤقف سے متضاد نکلا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کس بینچ میں لگنا ہے؟

رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کی کمیٹی نے آئینی ترامیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمایم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کونسے مقدمات کا بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی، جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے، یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا، آخر اللہ تعالیٰ نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترامیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈالا ہوا تھا لیکن ترامیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا، ٹیکس کے کیس میں کونسا آئینی ترامیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔

Advertisement

سماعت کے دوران عدالت کی معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو فوری طور پر طلب کر لیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کیے جانے والے مؤقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟

رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے اس کیس میں کہ وہ اس لے سکتی ہے یا نہیں، مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا تھا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا اجلاس میں آنا لازمی نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو کمیٹی آرڈرز اپنے دفاع میں پیش کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ لیں گے، اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بینچ کو جانا چاہیے، کیس آئینی بینچ کے سننے والا ہے یا نہیں تعین کرنا عدالت کا کام ہے، سندھ ہائی کورٹ میں آئے روز نارمل اور آئینی بینچز ایک دوسرے کو مقدمات بھجوا رہے ہوتے، کمیٹی کے جاری احکامات کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے، ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بینچز کے اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ میں مقرر کر دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کوئی بینچ عدالتی حکم کے تحت نیا بینچ تشکیل دے سکتا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ عدالت ماضی میں انتظامی پروسیجر پورا کرنے کیلئے چیف جسٹس یا کمیٹی کو کیسز بھجواتی رہی ہے، چیف جسٹس ہوں یا کمیٹی عدالتی احکامات کے پابند ہی ہوتے ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے سینئر وکلاء حامد خان اور منیر اے ملک کو معاون مقرر کر دیا اور اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کی ہدایت کر دی۔

Advertisement

عدالت نے سوال کیا کہ کیا ججز کمیٹی کسی بینچ سے زیر سماعت مقدمہ واپس لے سکتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاونت اس نقطے پربھی کروں گا کہ توہین عدالت کیس میں کمیٹی کے فیصلوں کو جائزہ لیا جا سکتا یا نہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ، ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست پر اعتراضات دور
سپریم کورٹ بار الیکشن: ہارون الرشید اور توفیق آصف آمنے سامنے، پولنگ جاری
پشاور ہائیکورٹ کا گورنر خیبرپختونخوا کو نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے کا حکم
نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا انتخاب پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج
توشہ خانہ ٹو کیس؛ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا اہم بیان سامنے آگیا
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ہتک عزت کیس میں تاریخی فتح؛ یوٹیوبر عادل راجہ کے الزامات جھوٹے قرار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر