
ملٹری ٹرائل کیس: کیا ایوب خان کے دور میں بنیادی حقوق میسر تھے؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے کہا یہ تم نے کیا بول دیا؟ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا فیصلے کو دو افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 21ویں ترامیم کے فیصلے میں واضح ہے فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائیں، سویلنز کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کیلئے ترامیم کی ضرورت نہیں تھی، ترامیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔
دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اکسیویں ترامیم فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کو ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا نو مئی کا جرم ان دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے۔
جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہونگی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے پوچھا کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ اس پور وکیل نے جواب دیا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لئے جبکہ وفاقی حکومت نے خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب میں ضرورت پڑی تو کیس نکتے کا جواب دینگے۔
بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر مہمند نے بھی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں؟ نجی وکیل ہی کرنے ہیں تو ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بند کر دیں، پہلے تو بلوچستان حکومت کو اپنا حق دعوی ثابت کرنا ہوگا، صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا پہلے یہ بتانا ہوگا۔
بعدازاں کیس کی مزید سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News