
بیسویں صدی اردو ادب کے کمال کی صدی تھی ، اس صدی نے جو گوہرنایاب پیدا کیے ، ان میں معروف ادیب، شاعر،مترجم و سفارتکار ابن انشاء بھی شامل ہیں، اردو ادب کے ہرفن مولا ابن انشا کی آج 41 ویں برسی ہے۔
پرمزاح جملوں سے دلوں کو لبھانے والے ابن انشا بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہوئے ، ان کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔
بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔
انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاء کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا “بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
” چاند کسے پیارا نہیں لگتا؟ لیکن انشا پر تو چاند نے جادو سا کر رکھا تھا
کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا
تصنیفات میں چاند نگر، دلِ وحشی ، اس بستی کے اک کوچے میں ، آوارہ گر د کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلئے ، نگری نگری پھرا مسافر، خمارِ گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔
استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق ابن انشا تھے۔
ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News