یہ سادہ سا ٹیسٹ دوران حمل بلڈپریشرکے خطرے کو کم کرسکتا ہے، تحقیق
حاملہ خواتین میں خون اورپیشاب کے ٹیسٹ سے بلڈ پریشرکے ہونے سے پہلے ہی اس خطرے کو روکا جاسکتا ہے جسے پری لیمپسیا کہاجاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ حاملہ خواتین میں دوران حمل پری لیمپسیا جیسی خطرناک پیچیدگی کی درست پیش گوئی کرسکتا ہے جسے جان کرماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس کی سب خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ نہایت کم قیمت ہے جس سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین استفادہ حاصل کر سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ پری لیمپسیا یعنی دوارن حمل بلڈ پریشر دنیا بھر میں زچگی کی موت کی سب سے بڑی تین وجوہات میں سے ایک ہے تاہم معائنہ کے ذریعے پیشن گوئی کی جانچ حمل کے دور کی بہترنگرانی اور زیادہ مؤثر علاج میں مدد فرام کرسکتی ہے۔
پری لیمپسیا عموماً حمل کے آخرمیں ہونے والے ہائی بلڈ پریشرکو کہتے ہیں جو دنیا بھر میں تقریباً 8 فیصد تک حمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایکلیمپسیا کا باعث بھی بن سکتا ہے جس میں دورے، فالج اور اعضاء کے مستقل نقصان شامل ہے۔
پری لیمپسیا کی تشخیص حمل کے دوسرے نصف حصے میں ہی کی جا سکتی ہے، اور اس کا واحد علاج بچے کو جنم دینا ہے، جس سے بچوں کو قبل از وقت پیدائش کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں پیڈیاٹرکس کی ایک سینئر ریسرچ سائنسدان، ایوانا ماریچ کہتی ہیں کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے حمل کے آغاز میں ہی پیش گوئی کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ معالج ابتدائی علامات جان کر ماں کی زیادہ بہتر انداز میں دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، حمل کے شروع میں کم خوراک والی اسپرین لینے سے خواتین میں پری لیمپسیا کی شرح کم ہو سکتی ہے جو اس حالت کے لیے خطرے میں ہیں، لیکن اس بات کی نشاندہی کرنا کہ کون اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم اس طرح ماؤں کو بچوں کی قبل از وقت پیدائش جو بہت خطرناک ہو سکتی ہے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
ڈیوڈ سٹیونسن جوکہ اطفال کے پروفیسر اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن میں مارچ آف ڈائمز پریمیچوریٹی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹرہیں کا کہنا ہے کہ جب آپ پری لیمپسیا کے خطرے کو کم کرتے ہیں، تواس طرح آپ قبل از وقت پیدائش کو بھی کم کر دیتے ہیں اس طرح دہرا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلڈ پریشر کی ادویات کب لینی چاہیے؟
یہ جاننے کے لیے کہ کون سے حیاتیاتی سگنل یا علامات پری لیمپسیا کے لیے ابتدائی انتباہی نظام فراہم کر سکتے ہیں، تحقیقی ٹیم نے ان حاملہ خواتین سے حیاتیاتی نمونے اکٹھے کیے۔ جن میں پری لیمپسیا ظاہر ہوا اور جن میں ظاہر نہیں ہوا۔
اس مقصد کے لیے تحقیقی ٹیم نے 49 حاملہ خواتین کو شامل کیا جن کے دوارن حمل تین بار جیسے ابتدائی، درمیان اور حمل کے آخری مہیںوں میں ٹیسٹ کئے گئے تھے۔ ان حاملہ خواتین میں سے 29 کو حمل کے دوران پری لیمپسیا ہوا جبکہ 20 اس سے محفوظ رہی۔
حمل کے تینوں ادوار میں شرکاء کے خون اور پیشاب کے نمونے حاصل کئے گئے۔ پھرسائنسدانوں نے ان کی جانچ کی۔
پری لیمپسیا کی پیش گوئی کرنا
محققین نے کے مطابق،حمل کے 16ویں ہفتے سے پہلے جمع کیے گئے پیشاب کے نمونوں میں ایسے واضح نشانات موجود تھے جو بعد میں پری لیمپسیا کا سبب بنے۔ تاہم ٹیسٹ کی کارکردگی کو مشین لرننگ میں استعمال ہونے والے شماریاتی معیار سے ماپا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں میں بلڈ پریشرکا خطرہ کتنے ہفتوں بعد جنم لے سکتا ہے؟
محققین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ ٹیسٹ حاملہ خواتین کے پری لیمپسیا کے خطرے سے منسلک طبی خصوصیات جیسے دائمی ہائی بلڈ پریشر، ہائی باڈی ماس انڈیکس، اور جڑواں بچوں کوجنم دینے والی طبی خصوصیات کے استعمال سے زیادہ درست پیشن گوئی کی طاقت رکھتے ہیں۔
اس بارے میں مزید جاننا کہ پری لیمپسیا کیسے نشوونما پاتا ہے، اور اس کی پیشن گوئی کیسے کی جائے، دنیا کی سب سے کمزور ماؤں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے محققین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں زچگی کی اموات کا تخمینہ 86 فیصدایشیا اورصحارا افریقہ میں ہوتا ہے۔
اس تحقیق کو اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے مارچ آف ڈائمز پریمیچوریٹی ریسرچ سینٹر، اسٹینفورڈ میٹرنل اینڈ چائلڈ ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کرسٹوفر ہیس ریسرچ فنڈ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، بروز ویلکم فنڈ، الفریڈ ای مان فاؤنڈیشن کی حمایت حاصل تھی۔
یہ تحقیق جریدے پیٹرنز میں شائع ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
