آلودگی سپربگ کے ذریعے خاموش وبائی بیماری کو بڑھا رہی ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جس کے مطابق ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا اور خاص طور پر آبی گزرگاہوں کی صفائی کو یقینی بنانا بڑھتے ہوئے بلٹ پروف سپر بگس کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت ضروری ہے جو کہ رواں صدی کے وسط تک دس ملین افراد کی بیماری اور ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آلودگی کو صاف کرنے سے اگلی خاموش وبائی بیماری کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سپربگ بیکٹیریا، وائرس، جراثیم اور فنگس کا ایک ایسا گروپ ہے جو زیادہ تر اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں جو عام طور پر ان کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فرش کی صفائی اس طرح کریں تاکہ آپ جراثیم سے محفوط رہ سکیں
اس کی کئی وجوہات ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ کثرت سے اینٹی بایوٹکس کا استعمال ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ، جراثیم جیسے بیکٹیریا، وائرس، اور فنگس ان دوائیوں کے ساتھ ڈھل جاتے ہیں جو انہیں مارنے کے لیے بنائی جاتی ہیں، یہ کچھ انفیکشنز کے لیے پہلے معیاری علاج کو کم موثر اور بعض اوقات غیر موثربنا دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اینٹی بائیوٹکس کا غلط استعمال، انفیکشن سے بچاؤ اور کنٹرول کے ناقص طریقے، صفائی کا نہ ہونا بھی اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
عالمی ادراہ صحت کا کہنا ہے کہ سپر بگس جسے اینٹی مائیکروبائل ریزیسٹنس اے ایم آر کہا جاتا ہے نے ایک اندزے کے مطابق 2019 میں 1.27 ملین افراد کومتاثر کیا جبکہ یہ مستقبل میں صحت کے عالمی خطرات میں سے ایک ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اے ایم آر کی وجہ سے 2050 تک ہر سال 10 ملین تک اموات ہو سکتی ہیں۔
جراثیم کش اسپرے، جراثیم کش ادویات اور اینٹی بائیوٹکس ان جرثوموں کو طاقت ور بنانے میں مدد کر سکتی ہیں جو ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو سے لے کر گائے کے دودھ اور گندے پانی تک ہر جگہ موجود ہیں۔
اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودگی اے ایم آرکی ترقی، ترسیل اور پھیلاؤ میں کلیدی محرک ہے، یہی وجہ ہے کہ ماحول کو صاف کرنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اینٹی مائیکروبائل مزاحمت ایک فطری رجحان ہے، لیکن انسانوں، جانوروں اور پودوں میں اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال اور غلط استعمال نے مسئلہ کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اینٹی بائیوٹکس اب ان انفیکشنز سے لڑنے کے لیے کام نہیں کر سکتی ہیں جن کے علاج کے لیے انہیں ڈیزائن کیا گیا تھا۔
جبکہ اقتصادی شعبوں یعنی زراعت اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ فارماسیوٹیکل اور کیمیکل مینوفیکچرنگ کے شعبوں سے ماحول میں ہونے والی آلودگی نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
کھیتوں میں جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اسپرے بھی اس میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جبکہ بھاری دھاتیں بھی اس مسئلے میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
خاموش وبائی بیماری
اقوام متحدہ کی جانب سے کئے جانے والے اس مطالعے سے عندیہ ملتا ہے کہ اینٹی مائکروبائل مزاحمت بھارت کے دریائے گنگا سے لے کر امریکی ریاست کولوراڈو کے دریائے کیشے لا پوڈرے تک پوری دنیا کے آبی راستوں میں موجود ہیں۔
برطانیہ کی آسٹن یونیورسٹی میں مائکرو بایولوجی کے سینئر لیکچرر جوناتھن کاکس نے اے ایف پی کو بتایا، یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، کیونکہ دریا پینے کے پانی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور یہ پہلے سے ہی خاموش وبائی بیماری ہے۔
کاکس کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافہ، شہری کاری اور خوراک اور صحت کی دیکھ بھال کی بڑھتی ہوئی مانگ اور ماحول میں آلودگی کے اخراج میں اضافے کے سبب اے ایم آر مزید بڑھ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے حکومتوں اور بین الاقوامی گروپوں پر زور دیا کہ وہ آلودگی کے کلیدی ذرائع کو حل کریں، جن میں سیوریج، شہر کا فضلہ، صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی، دواسازی کی تیاری اور فصلوں کے وسیع شعبے شامل ہیں۔
ساتھ ہی طبی طریقوں پر توجہ مرکوز کی جائے، جیسے کہ انفیکشنز کے لیے تیز رفتار جانچ کو بہتر بنانا تاکہ اینٹی بایوٹک کو غلط طریقے سے تجویز نہ کیا جاسکے۔ ساتھ ہی اینٹی مائکروبائل کو دور کرنے کے لیے گندے پانی کے انتظام کو بہتر بنانا بھی ضرروی ہے۔
کاکس نے کہا، ماحولیاتی آلودگیوں کو دور کرنے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہے تاہم اس کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومتیں ماحول کی اتنی پرواہ نہیں کرتی ہیں ۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
