
کھانے کے شوقین افراد کے لئے بُری خبر آ گئی ہے۔
آج کے دور میں جہاں ہر کوئی فاسٹ فوڈ اور تیخے کھانے کا شوقین ہے وہیں اس کے ہونے والے نقصانات سے لاعلم بھی ہے۔
مرچ مصالحے سے بھر پور کھانا یا پھر ضرورت سے زیادہ کھانا جگر کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔
امراضِ قلب سے متعلق ایک معروف تنظیم کا کہنا ہے کہ ہر چار بالغ امریکیوں میں سے ایک زندگی کو خطرے سے دوچار کرنے والی جگر کی بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اور اس بیماری کی وجہ ضرورت سے زیادہ کھانا یا بسیار خوری ہے۔
اس مرض کو طبّی اصطلاح میں غیر الکوحل فیٹی لیور کی بیماری کہتے ہیں جس میں مریض اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب اس کے جگر میں چربی جمع ہونے لگتی ہے۔
ابتدائی مراحل میں مریض میں کسی بھی قسم کی خبردار کرنے والی علامتیں ظاہر نہیں ہوتی ہیں لیکن جب کئی سال اسی طرح گزر جاتے ہیں، اس کے بعد مریض اپنے پیٹ کے اُوپر دائیں جانب بے چینی محسوس کرتا ہے اور وہ جگہ سوجی ہوئی لگتی ہے۔
اگر اس مرحلے پر بھی اس مرض کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر جگر کی سوزش شروع ہو سکتی ہے، جگر میں زخم بن سکتے ہیں اور آخر میں جگر کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے اس موضوع پر پہلی بار اپنے بیان میں تلقین کی ہے کہ غیر الکوحل فیٹی لیور کی بیماری کی تشخیص کا طریقۂ کار بہتر بنایا جائے اور اس بیماری کے بارے میں لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جائے۔
تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر پائول ڈوئل جو اوریگان یونیورسٹی میں ذیابیطس کے ماہر بھی ہیں، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ معمول کی طبّی جانچ پڑتال کے دوران اس بیماری کی علامتیں یا تو پوشیدہ رہتی ہیں یا پھر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ امریکا میں یہ بیماری جگر کے مسائل کے حوالے سے بہت عام ہے جو ہر چار بالغ افراد میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے۔
دیگر الفاظ میں 6 کروڑ 40 لاکھ امریکی اس مرض کا شکار ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ہر سال 10لاکھ بالغ افراد اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
غیر الکوحل فیٹی لیور کی بیماری ایک کثیرالمعنی اصطلاح ہے جس میں جگر کی وہ تمام دیرینہ بیماریاں شامل ہیں جنہیں جگر میں ضرورت سے زیادہ چربی جمع ہونے کی وجہ سے تحریک ملتی ہے۔
طویل عرصے تک جگر پر اس کے مضر اثرات نمایاں نہیں ہوتے لیکن کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد یہ طبّی صورتحالغیر الکوحل سٹیٹو ہیپاٹائٹس میں تبدیل ہو جاتی ہے جو سوزش کو جنم دیتی ہے اور اس اہم عضو کو زخم خوردہ بنا دیتی ہے۔
ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ جن لوگوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ فربہ ہوتے ہیں یا ذیابیطس یا ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہوتے ہیں، انہیں اس بیماری کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینش کے تخمینے کے مطابق امریکا میں 40فیصد بالغ افراد یا 10 کروڑ لوگ فربہ ہیں۔
جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے علاج کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ تبدیل کریں تاکہ ان کے جسم کا وزن کم از کم 10 فیصد کم ہو جائے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے وہ صحت بخش خوراک کھائیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔
اس مرض کی تشخیص کیلئے ڈاکٹرز فی الحال معمول کا بلڈ ٹیسٹ کرواتے ہیں تاہم امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ خون کے ٹیسٹ میں اکثر و بیشتر جگر میں ہونے والی خلاف معمول تبدیلیاں پکڑ میں نہیں آتی ہیں اور بعض کیسز میں جو انتباہی علامتیں دیکھی جاتی ہیں انہیں غلطی سے بعض دوائوں کے سائیڈ ایفکٹس اور الکحل کا حالیہ استعمال قرار دے دیا جاتا ہے۔
بعد کے مراحل میں بیماری کی تشخیص کیلئے بایوپسی کی مدد لی جاتی ہے لیکن یہ مہنگا بھی ہوتا ہے اور اس میں سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تشخیص کی شرح کو بہتر کرنے کیلئے ’’اے ایچ اے‘‘ نے تجویز دی ہے کہ ڈاکٹرز تشخیصی طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے مخصوص نوعیت کا الٹرا سائونڈ استعمال کریں جس کے ذریعہ جگر کے لچکیلا پن، چربی اور سختی کی پیمائش کی جا سکے۔
ڈاکٹر پائول ڈوئل کا کہنا ہے کہ غیر الکوحل فیٹی لیور کی بیماری کے ابتدائی مرحلے میں تشخیص اور اس کا علاج کرنا اس لئے ضروری ہے کہ تاخیر کی صورت میں جگر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے علاوہ اس سے قلبی شریانی مرض کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News