
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں ڈپریشن، نفسیات اور فالج جیسے دماغی و ذہنی مسائل واضح طور پر زیادہ دیکھے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ ماہرین نے یہ نہیں کہا کہ کورونا وائرس ہی ان تمام دماغی و ذہنی مسائل کی وجہ بنتا ہے، تاہم اس مطالعے سے کورونا وائرس اور 14 مختلف دماغی و نفسیاتی کیفیات میں تعلق ضرور سامنے آیا ہے۔
ماہرین نے بتا دیا کہ کسی وبائی بیماری میں مبتلا ہوجانا بری خبر ہوتی ہے جسے سن کر کوئی بھی شخص شدید اعصابی تناؤ، تشویش اور ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے اور یہ کیفیت طویل عرصے تک برقرار بھی رہ سکتی ہے۔
اس کے بر عکس متاثرہ شخص کام میں چڑچڑا پن اور بدمزاجی کا مسلسل اظہار کرسکتا ہے۔
دوران تحقیق کورونا وائرس اور دماغی و نفسیاتی مسائل میں ممکنہ تعلق کے کچھ شواہد بھی مل چکے ہیں تاہم موجودہ مطالعہ ان سب سے زیادہ مضبوط ہے۔
دوسری جانب اس تحقیق سے کیے گئے مطالعے میں 20 جنوری 2020 سے 13 دسمبر 2020 کے دوران کووِڈ 19 سے متاثر ہو کر زندہ بچ جانے والے 236,379 امریکیوں کی صحت سے متعلق تفصیلات جمع کی گئیں جو کم از کم چھ ماہ کا احاطہ کرتی تھیں۔
اس بات کا اندازہ موسمی زکام سے متاثر ہونے والے افراد کی تفصیلات سے کیا گیا۔
تحقیق میں واضح ہو گیا کہ کورونا کو شکست دے کر صحتیاب ہونے والے، تقریباً 37 فیصد افراد میں آئندہ چھ ماہ کے دوران کم از کم ایک دماغی یا نفسیاتی بیماری ظاہر ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ کووِڈ 19 کے حملے میں شدید بیمار ہوکے آئی سی یو پہنچ جانے والوں کی شرح 46.42 فیصد دیکھی گئی اور اب تک کی تحقیق سے کووِڈ 19 اور دماغی و نفسیاتی مسائل میں ایک مضبوط تعلق ضرور سامنے آیا ہے کہ کورونا وائرس ہی ان مسائل کی وجہ بنتا ہے۔
اس تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود حسین اور دیگر ماہرین بھی شریک تھے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News