
موسیقی کا قبضہ براہِ راست روح پر ہوتا ہے جس قدر اس فن نے ترقی کی اس کی دل فریبی بڑھتی گئی انسان اور حیوان یکساں طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ موسیقی انسان کے ساتھ ہزاروں سالوں سے سائے کی طرح چلی آ رہی ہے۔
فن موسیقی کا مرتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تمدن اور معاشرت کی ترقیوں کے ساتھ اس فن کی ترقی پہلو بہ پہلو ہوتی رہی،جب سے انسانی تاریخ دنیا میں روشناس ہوئی دنیا نے اس فن کو بھی پہچانا۔
محققین، موسیقی کے ارتقائی عمل کو پرندوں کی میٹھی بولی سے جوڑتے ہیں، جس میں کوئل کی کوک، چڑیوں کی چہکار، مورکی چنگھاڑ اور ان آوازوں کے ساتھ ان کے ناز و نخرے نے ہماری توجہ ان کی طرف دلائی۔
ہندوستان کے پرانے شکاری بھالو اور جنگلی ہرن کے شکار کے لیے موسیقی کا سہارا لیا کرتے تھے۔ سپیرا سانپ کو پکڑنے کے لیے بھی بین ہی کا استعمال کرتا ہے۔ سانپ بین کی آواز پر اپنے بِل سے نکل آتا ہے اور بین کی دھن پر ناچنے لگتا ہے۔
ابتدائی انسانی تمدنی دور میں موسیقی سے متعلق معلومات معتبر تاریخوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے کچھ کتبے ملے ہیں جن سے اتنا معلوم ہوتا ہے اسیرین کے زمانے میں کچھ عرب قیدی آئے تھے ۔
یہ قیدی کام بھی کرتے تھے اور گاتے بھی تھے اُن کا گانا اسیرین کو پسند آیا۔ اسیرین فونیشین یہود اور عرب میں تجارتی رابطے قائم تھے اور زبان کا بھی اشتراک تھا جس نے مذاقِ موسیقی کے لیے زمین ہموار کی۔
موسیقی کو ہندوؤں کے عقائد کے مطابق مذہب کا درجہ حاصل ہے اور قدیم دور سے ہی موسیقی کو بہت متبرک مانا جاتا ہے۔ اس فن کو ہندوؤں نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اس میں شک نہیں کہ فنِ موسیقی کے معاملے میں ہندوستان تمام دنیا کامعلم ہے۔ موسیقی کے ذریعے بہت سے امراض کا علاج ہندوؤں میں بہت قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ شاعری اور موسیقی ایک حقیقت کے دو الگ نام ہیں، جو دماغ کے ساتھ ساتھ وجود کی جملہ بیماریوں کا علاج ہیں۔ موسیقی دلوں میں نفرت کو کم کرکے محبتوں سے بھر دیتی ہےاورذہن کو رنگین خیالات سے بھر کر محبت کا درس دیتی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News