
مسلسل بیٹھے رہنے کا عمل ڈپریشن اور یاسیت جیسی کیفیات پیدا کرتا ہے۔
ایک سروے کے دوران یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ کووڈ 19 کے ابتدائی مہینوں میں لوگ ڈرائنگ روم اور بیڈروم تک ہی محدود رہے اور ورزش کا وقت ٹی وی نے لے لیا۔
اس تحقیق کے مطابق اپریل سے جون تک جن افراد نے اپنا زیادہ تروقت گھر میں بیٹھ کر گزارا تھا ان میں ڈپریشن کی علامات قدرے زیادہ دیکھی گئی تھیں۔
اب ماہرین اس کا تعلق دماغی امراض سے جوڑنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔
مارچ 2020ء میں کورونا وباء کا عروج تھا اور لوگ گھروں تک محدود تھے، اس وقت لوگوں کے برتاؤ اور دماغ پر اس کے اثرات نوٹ کیے گئے اور انہوں نے 50 امریکی ریاستوں کے 3000 افراد کا جائزہ لیا۔
سوال نامے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح روز و شب گزار رہے ہیں اور کتنی دیر بیٹھے رہتے ہیں اور دماغی اور نفسیاتی طور پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ وبا سے پہلے ان کے معمولات کیسے تھے اور دماغی صحت کس طرح کی تھی؟
اس سوال نامے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکی جسمانی سرگرمی کی رہنما ہدایات ( جس میں ہفتے میں ڈھائی سے پانچ گھنٹے معتدل یا شدید درجے کی ورزش شامل ہے) پر عمل کم ہوگیا۔
یعنی اس عمل میں 32 فیصد کمی دیکھی گئی اور اسی دوران تمام شرکا نے ڈپریشن، تنہائی اور بے چینی کا اعتراف بھی کیا۔
جب کہ بعض افراد نے کہا کہ کووڈ 19 وباء کے فوری بعد شروع ہونے والی گھریلو قید کی الجھن اور دماغی صحت 8 ہفتوں میں درست ہوگئی کیونکہ انہوں نے معمولات کو بہتر بنایا تھا۔
اس کے بعد دوسری قسم کے لوگوں نے جب اپنے بیٹھنے کے معمولات بڑھائے تو وہ بحال نہ ہوسکے اور ڈپریشن کے گرداب میں چلے گئے۔
اس تحقیق سے نمایاں سبق یہ ملتا ہے کہ مسلسل بے عملی، ورزش سے اجتناب اور بیٹھے رہنے کا عمل ڈپریش کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ تمام تفصیلات ایک بین الاقوامی جرنل فرنٹیئرز ان سائیکائٹری میں شائع ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News