
پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا بطور وکیل لائسنس بحال کر دیا۔
چوبیس نومبر ۲۰۲۱ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت پاکستان بار کونسل کی تین رکنی انرولمنٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا سید قلب حسن شاہ اور اعظم نذیر تارڑ اس کمیٹی کے ممبران ہیں۔
کمیٹی نے سینئیر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کا وکالت کا لائسنس بحال کر دیا ، جس کے بعد وہ اب سپریم کورٹ میں بطور وکیل پیش ہو سکیں گے۔
شوکت عزیز صدیقی نے بطور وکیل پریکٹس کیلئے پاکستان بار کونسل کی انرولمنٹ کمیٹی سے رجوع کیا تھا۔
خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس سنہ 2015 میں دائر کیا گیا تھا اور ان پر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر پر تزین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا الزام ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرنے پر نوٹس جاری کیا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے 2018 میں شوکت صدیقی کو بطور جج اسلام آباد کورٹ برطرف کر دیا تھا۔ ان کا یہ مقدمہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ شوکت صدیقی کو بدعنوانی یا اخلاقی گراوٹ جیسے الزامات کی بنیاد پر چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف نہیں کیا تو اس وجہ سے یہ کمیٹی فوری طور پر ان کے لائسنس کو بحال کرتی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک شکایت پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے صدر مملکت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔ جس پر عمل کرتے ہوئے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اکتوبر سنہ 2018 میں شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جولائی سنہ 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ ‘آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات کو مینوپولیٹ کرتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔‘
اس تقریر میں جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے ملاقات کر کے اُنہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد کرنے کا کہا گیا تھا جسے جسٹس شوکت صدیقی کے بقول تسلیم کرلیا گیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ان الزامات پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا تھا۔
مذکورہ جج کے ان بیانات کی روشنی میں وزارت دفاع کی طرف سے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پاتے ہوئے اور صدر مملکت کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News