Advertisement
Advertisement
Advertisement

سپریم کورٹ کا کراچی میں 4 قدرتی جھیلیں بحال کرنے کا حکم

Now Reading:

سپریم کورٹ کا کراچی میں 4 قدرتی جھیلیں بحال کرنے کا حکم
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری

کراچی کے نالہ متاثرین کو معاوضے کی بقیہ رقم ایک ماہ میں ادا کرنے کی ہدایت

رفاہی پلاٹوں پرقبضے سے متعلق کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے کراچی میں پی ای سی ایچ ایس میں چارقدرتی جھیلیں بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کشمیرروڈ سے ملبہ اٹھانےکا بھی حکم دیا

کراچی میں رفاہی پلاٹوں پرقبضے کے معاملے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ جھیل پارک کا کیا بنا جھیل تو ختم ہوگئی شاید۔ دو تین جھیلیں تھیں وہاں کیا بنادیا گیا ہے؟  تین جھیلیں تھیں کراچی میں، جھیل پارک میں دو جھیلیں تھیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہاں ہیں کے ایم سی والے جن کی ذمہ داری تھی؟ ایڈمنسٹریٹر صاحب کراچی کی چار جھیلیں بند کردیں آپ نے؟ ہم یہاں کھیلا کرتے تھے، مچھلی پکڑتے تھے۔ یہ نیچرل جھیلیں تھیں ختم کردی گئیں۔

ایڈمنسٹریٹر مرتضٰی وہاب نےعدالت کوبتایا کہ ایک طرف پبلک پارک دوسری طرف پلان ٹینشن کی گئی ہے۔ ایک طرف فٹبال گراؤنڈ ہے۔

Advertisement

سماجی رہنما امبرعلی بھائی نے کہا کہ 54 پارکس کی زمینوں پرقبضہ ہے، کچھ پارکس کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگئے۔ وہاں دارالامان سوسائٹی ہے دوسری جگہ فاؤنڈیشن اسکول ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کیا یہ جھیلیں بھرتی گئی ہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ان جھیلوں سے پہلے ہی پانی ختم ہوگیا تھا۔

شہری نے کہا کہ جھیل پارک سےمتصل پارک پرغیرقانونی دکانیں بن گئی ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اتنا خوبصورت علاقہ تھا کتنے تمیز کے لوگ رہتے تھے۔ سارے علاقے کا کیا حال کردیا ہے

مرتضی وہاب نے عدالت کو بتایا کہ اب ساراعلاقہ کمرشل ہوگیا ہے۔

Advertisement

میونسپل کمشنر نے کہا کہ میں نے تو ابھی تین دن پہلے چارج لیا ہے۔

چیف جسٹس نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ کیسےغیر قانونی تعمیرات ختم کریں گے؟

مرتضٰی وہاب نے کہا کہ ماہرین کی مدد سے مارکنگ کرکے کارروائی کریں گے۔

چیف جسٹس نے بولے ہم نے اپنے بچوں کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ کوئی تفریح نہیں ہے۔

مرتضٰی وہاب نے بتایا کہ کراچی میں 2003 میں کمرشلائزیشن کی گئی، 26 سڑکوں کوکمرشلائزکیا گیا۔

چیف جسٹس بولے آپ اس کوundo نہیں کرسکتے؟ کچھ توکریں۔

Advertisement

مرتضٰی وہاب نے کہا کہ دو دفعہ شہری حکومت نے کمرشلائزیشن کی گئی عدالتوں نے فیصلہ برقراررکھا۔

امبرعلی بھائی نے کہا کہ کمرشل نوٹیفائڈ 29 روڈ ہیں، سول سوسائٹی نےمخالفت کی تھی۔ اس وقت کی شہری حکومت نے فنڈز جنریٹ کرنے کیلئے کمرشلائزیشن کی تھی۔

 مرتضی وہاب نے کہا کہ کمرشلائزیشن کے بعد ٹاورز بنتے چلے گئے۔ شاہراہ پاکستان خوبصورت سڑک تھی مگر کمرشلائزڈ کردیا گیا۔

چیف جسٹس بولے شارع فیصل پر بھی سارے بنگلے تھے ختم ہوگئے۔ بڑے شہروں میں کثیرالمنزلہ عمارتیں ہوتی ہیں مگر پراپرپلاننگ تو ہو۔ سوک سینٹر کے پاس مشرق سینٹر کا حال دیکھیں، تجاوزات ہٹائیں۔ سوک سینٹر سے چھیپا کو ہٹائیں وہ گرین بیلٹ پربیٹھے ہیں۔ شارع فیصل پرلائٹ کون جلاتا ہے؟ عموماً اندھیرارہتا ہے۔

مرتضی وہاب نے جواب دیا کہ کے ایم سی کی حدود میں لائٹس آن رہتی ہیں کنٹونمنٹ علاقوں میں بند رہتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا میں نے بھی یہی نوٹ کیا ہے، کنٹونمنٹ والوں کا کیا مسئلہ ہے؟ کنٹونمنٹ والوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا کیا؟ کھمبوں پر سیاسی جماعتوں کی جھنڈے لگے ہوتے ہیں۔ پرچم لگانا ہے تو پاکستان کا پرچم لگائیں۔

Advertisement

امبرعلی بھائی نے کہا کراچی مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم ہے۔ مرتضی وہاب تو صرف 33 فیصد حصے کے ذمہ دار ہیں۔

مرتضی وہاب نے کہا کہ ہمیں کہیں عدالتی حکم ،کہیں کے پی ٹی روک دیتا ہے۔ اہم مقامات پر پلانٹیشن شروع کی مگررکاوٹیں ڈالی گئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارکس کے انتظام کے حوالے سے تو قانون سازی کریں۔ یہ سارا انتظام ایک اتھارٹی کے پاس ہونا چاہئے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
یوم آزادی گلگت بلتستان پر آئی ایس پی آر نے خوبصورت نغمہ جاری کردیا
یکم نومبر 1947؛ گلگت بلتستان کا ڈوگرا راج سے آزادی کا دن
شہر قائد میں فیس لیس ای سسٹم کے نفاذ کا پانچواں روز، 4136 ای چالان جاری
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا
تیل و گیس کی تلاش ، 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع
27 ویں آئینی ترمیم پیر کو پارلیمنٹ میں پیش کی جا رہی ہے ، کامران مرتضیٰ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر