Advertisement
Advertisement
Advertisement

فوڈ ڈیلیوری کے لیے روبوٹس کے استعمال میں حیرت انگیز اضافہ

Now Reading:

فوڈ ڈیلیوری کے لیے روبوٹس کے استعمال میں حیرت انگیز اضافہ
Food delivery by robots

کورونا وبا سے پہلے گاہکوں تک خوراک پہنچانے کے لیے روبوٹس کا استعمال بہت محدود تھا، تاہم وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت پیش آئی تو انسانوں کی جگہ چھوٹی چھوٹی خودکار مشینوں نے یہ خدمت فراہم کرنا شروع کر دی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں ننھے منے روبوٹس بڑے سائز کے چار پزا تھامے گاہکوں کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں۔

کہیں کہیں یہ سڑک کے کنارے بھی چلتے نظر آ جاتے ہیں مگر ایسا نظارہ نسبتا      کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں شہروں میں روبوٹس کی بہتات ہو جائے گی۔

روبوٹس بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ان کے پاس بہت زیادہ آرڈرز آ رہے ہیں۔

سٹارشپ ٹیکنالوجیز نے حال ہی میں بیس لاکھ خوراکوں کی ڈیلوری مکمل کی ہے، اس کمپنی کے سی ای او ایلسٹیر ویسٹ گارتھ کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے دوران روبوٹس کی طلب چھت سے جا لگی ہے۔

Advertisement

2019 تک کمپنی کے پاس صرف دو سو پچاس روبوٹس تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر ایک ہزار سے زائد ہو گئی ہے، کئی سو مزید روبوٹس کے اس دستے میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔

سٹارشپ ٹیکنالوجیز اس وقت امریکہ کے 20 کیمپس میں فوڈ ڈیلیوری کا کام کر رہی ہے جبکہ سڑک کنارے بھی یہ کھانا فراہم کر رہے ہیں۔

روبوٹس مختلف ڈیزائن اور شکلوں میں بن رہے ہیں، بعض کے چار پہیے ہیں تو کچھ کے چھ، لیکن ان تمام میں کیمرے، جی پی ایس اور بعض اوقات لیزر سکینرز بھی لگے ہوتے ہیں تاکہ سڑک کنارے یا گلیوں میں اپنا راستہ تلاش کر سکیں۔ ان کی رفتار 5 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔

اگرچہ دفتر میں بیٹھے آپریٹرز ان کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ایسی نوبت شاذ و نادر ہی آتی ہے جب روبوٹس کو رکاوٹوں سے بچانے یا بریکس لگانے کی ضرورت پڑے، یہ چھوٹی خوددار مشینیں اپنا کام بخوبی سرانجام دیتی ہیں۔

روبوٹس کو چلنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جسے بار بار چارج کرنا ہوتا ہے، یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے ان کا استعمال وسیع پیمانے پر نہیں ہو رہا۔

ان کی رفتار بھی کم ہوتی ہے اور یہ محدود سے علاقے میں کام کر سکتے ہیں۔ اسی طرح گنجان آباد شہروں میں ان کی نقل و حرکت بہت دشوار ہوتی ہے۔

Advertisement

تاہم کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ دفاتر اور کم آبادی والے علاقوں میں یہ اپنا کام احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔

این ڈی پی کے مطابق رواں برس امریکہ میں ڈیلیوری کا کام 66 فیصد بڑھ گیا ہے، وبا کے خاتمے کے بعد بھی اس کی طلب اسی طرح بڑھتی رہے گی کیونکہ لوگ اس طریق کار کے عادی ہو چکے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان کا خلائی مشن ایک نئے دور میں داخل، ہائپرسپیکٹرل سیٹلائٹ لانچنگ کی تاریخ مقرر
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی معمول بن چکی،اصل وجہ کیا ہے ؟
ہوا میں معلق رہ کر بجلی بنانے والی انوکھی ونڈ ٹربائن تیار
پاکستان میں پہلی بار گوگل اے آئی پلس پلان متعارف
جینا اور مرنا مریخ پر ! ایلون مسک نے انوکھی خواہش ظاہر کردی
ناسا شٹ ڈاؤن ، 15 ہزار 94 ملازمین فارغ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر