
توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرشکیل الرحمن، عامرغوری، انصارعباسی، رانا شمیم کیخلاف باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی میں شوکازنوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے کہا کہ عدالت آپ سب کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتی ہے۔ تاثر یہ ہے کہ بیان حلفی ہے۔ سات دن میں توہین عدالت شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔ دس دن بعد کیس سماعت کے لیے مقررہوگا۔
تفصیلات کے مطابق ایڈیٹرانویسٹیگیشن انصارعباسی، ایڈیٹران چیف میرشکیل الرحمن اور ایڈیٹرعامرغوری کو آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں طلب کیا تھا۔
سابق جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کی غیرحاضری
سابق جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کی جگہ ان کا بیٹا، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیازاللہ نیازی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
سابق جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ میرے انکل کا چھ تاریخ کو انتقال ہوا تھا۔ والد صاحب رات عارف والا سےاسلام آباد پہنچے ہیں، ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ۔ہم جواب دیں گے لیکن کچھ وقت دے دیں۔
سابق جج کے بیٹے نےعدالت کو یہ بھی بتایا کہ کہا کل فیصل واوڈا نےرانا شمیم سے متعلق غلط الفاظ کا استعمال کیا ہے اس پر بھی نوٹس کریں۔ رانا شمیم بھی معزز جج رہے ہیں۔
عدالت نے سابق جج کے بیٹے سے کہا کہ وہ اتنے بڑے عہدے پر رہے، تین سال خاموش کیوں رہے؟
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ یہ کیس توہینِ عدالت کا بنتا ہے۔ آج وہ اپنے بھائی کے انتقال کی وجہ سے نہیں آئے۔ دس تاریخ کو رانا محمد شمیم صاحب لندن میں دستخط کرنے جاسکتے ہیں لیکن یہاں نہیں آسکتے۔ انہوں پورے عدالتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرشکیل الرحمن کوروسڑم پربلا لیا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےان سے کہا میرشکیل صاحب بوجھل دل سے آپ کو طلب کیا ہے۔ آزادی صحافت بہت زیادہ اہم ہے لیکن عدالت کے احترام کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریٹائرجج اورچیف جسٹس کیخلاف رپورٹ نہیں تھی، آپ کی خبر اس عدالت سے متعلق ہے، آپ کی خبر سے لوگوں کا اعتماد متاثر ہوا۔ مجھے اپنے ججز پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ کارروائی شروع نہ کرتے۔
چیف جسٹس کا میر شکیل الرحمان سے استفسار
چیف جسٹس نے میر شکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے بیان حلفی کو فرنٹ پیج پرچھاپا۔ کوئی حلف کہیں بھی دے گا، کیا آپ فرنٹ پیج پرچھاپ دیں گے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمان کو حکم دیا کہ آپ نے جو خبر چھاپی آپ اس کو پڑھیں۔
میر شکیل نے عدالت کو جواب دیا کہ میری عینک اس وقت میرے پاس نہیں۔ انصارعباسی نے کمرہ عدالت میں خبرپڑھی۔
اس پرعدالت نے کہا کہ اس کمرہ عدالت میں کوئی میرے ججز پر انگلی اٹھا سکتا ہے؟ آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے ججز کسی سے ہدایت لیں گے؟
عدالت نے پھر پوچھا کہ آپ ساری خبر ہڑھیں، لندن سے نوٹریائز ہوئی کیا آپ نے تحقیق کی؟ اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔ آپ نے تحقیق کی کہ یہ باتیں الیکشن سے پہلے کیوں جاری نہیں کی گئی؟
چیف جسٹس نے مذید کہا کہ چھ جولائی کو احتساب عدالت کا فیصلہ آیا تھا۔ 16 جولائی کو اپیل دائر کی گئی۔ میں خود اورجسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹی پر تھے۔ اس وقت جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جج تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ملزمان کے وکیل خواجہ حارث صاحب تھے، امجد پرویز، عائشہ حامد ظفرخان ،جہانگیرخان جدون وکلا میں شامل تھے۔
عدالت نے پھر کہا کہ کیا آپ نے وکلاء سے پوچھا کہ اس وقت کون سے ججز بینچ کا حصہ تھے؟ کیس اس وقت 31 جولائی کو سماعت کے لیےمقررکیا گیا۔ آپ کے وکلا نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وکلا جانتے تھے کسی صورت اس دن سزا معطل نہیں ہوسکتی تھی۔ عدالت نے پھر بھی اکتیس جولائی کی جلد سماعت کی تاریخ دی۔ آپ نے یہ سب ریکارڈ نکالا؟
عدالت نے کہا کہ عدالت کا اعتماد توڑنے کے لیے اسکینڈل بنانا شروع کردیے، آپ نے اتنی بڑی خبر دے دی۔ اتنے بڑے اخبار نے بیان حلفی چھاپ دیا۔ جب تین سال بعد کیس مقرر ہوا تو پراسرار بیان حلفی آگیا۔
چیف جسٹس نےانصارعباسی سے کہا کہ آپ ہمارا احتساب کریں مگر عدالتی نظام میں مداخلت نہ کریں۔ آپ نے پوری ہائیکورٹ کو نقصان پہنچایاہے۔ آپ کیا کہیں گے؟
عدالت نے استفسارکیا کہ جس بینچ نے سزا معطل کی وہ کس کے کہنے پربنا پھریہ بتائیں؟ اس بینچ کی میں سربراہی کررہا تھا۔ ہم نے روزانہ کی بنیاد پرسماعت کی۔
چیف جسٹسن نے کہا کہ سب کو چیلنج ہے آپ ایک چھوٹا سا ثبوت لے آئیں کہ میری عدالت نے کہیں سے کوئی آرڈرلیا ہویا ہمارے کسی جج نے کسی سے ملاقات بھی کی ہو تو بتائیں۔
انصار عباسی کی وضاحت
انصارعباسی نےعدالت کو بتایا کہ بیان حلفی کی خبرمیں نے دی ہے۔ ایک طرف سابق چیف جسٹس اوردوسری طرف سابق چیف جج تھے۔
عدالت نے انصار عباسی سے کہا آپ کی خبر اس ہائیکورٹ سے متعلق تھی۔ آپ ثبوت لے آئیں تو عدالت سابق چیف جسٹس کیخلاف بھی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔
انصارعباسی نےعدالت کو بتایا کہ جس نے بیان حلفی دیا وہ خود مان رہا ہے کہ میں نے بیان حلفی دیا۔ جسٹس صدیقی صاحب نے جو کیا، واٹس ایپ کی کہانی اور اس معاملے کی تحقیق ہونی چاہئے۔
انصارعباسی نےعدالت سے کہا کہ ان دونوں کا قصورنہیں ہے۔ یہ خبر میں نے کورٹ کی عزت کے لیے دی۔ آپ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں مگر اس معاملے کی تحقیقات کروائیں۔
عامر غوری نے عدالت سے کہا کہ ہم عوامی مفاد کے محافظ ہیں۔ نوٹرائزڈ دستاویز آئیں تو ہم نے شفاف طریقے سے خبردی۔
عدالت نے کہا کہ یہ پہلی بارنہیں ہوا۔ یہ مسلسل کہا جارہا ہےکہ الیکشن سے پہلےنہ چھوڑیں۔ آپ ہمارے رجسٹرارسے پوچھ لیتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس
عدالت نے میرشکیل الرحمن، عامرغوری، انصارعباسی، رانا شمیم کیخلاف باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی میں سب کو توہینِ عدالت کا شوکازنوٹس جاری کیا۔
چیف جسٹس نے مذید کہا کہ عدالت آپ سب کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتی ہے۔ تاثر یہ ہے کہ بیان حلفی ہے۔ سات دن میں توہینِ عدالت شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔ دس دن بعد کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ تمام فریقین 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News