توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پرسماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی اپیلوں پر سماعت کی۔ مریم نوازعدالت میں پیش ہوئیں۔
مریم نواز کے وکیل عرفان قادرنےعدالت سے کہا کہ مجھ سے منسوب جو دلائل لکھے گئے، اس میں درستی کرلیں جو مریم نواز کی نئی درخواست تھی، انہیں میرے دلائل تصور کیا جائے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو بل آج پیش ہورہے ہیں ان کی کاپیاں آپ تمام ممبران کو بھجوا دی گئی ہیں۔ اگر آرڈرمیں کچھ غلطی ہے تو ہم اس کی تصحیح کردیں گے۔
عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے کہا تھا کہ میری درخواست کے متن کو بھی میرے دلائل کا حصہ سمجھا جائے۔ میرے دلائل درخواست سے ہٹ کر نہیں تھے۔ میں نے ثبوت کی بات میں کہا تھا کہ کوئی ڈاکومنٹ ایسا نہیں جو ملکیت ثابت کرے۔
جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس میں کہا کہ آرڈر لکھواتے وقت انگریزی کی کچھ الفاظ آگے پیچھے ہوسکتے ہیں۔ غلط انگریزی پرمعذرت خواہ ہیں، ہم جان بوجھ کرکوئی غلطی نہیں کررہے۔ ابھی کیس چل رہا ہےجو چیزیں آپ نکالنا چاہتے ہیں وہ ہم نکال دیں گے۔
عرفان قادر نے کہا کہ میرے موکل نے جب آرڈر پڑھا تو سمجھا کہ عرفان قادر نے سب کچھ مکمل کرلیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کوئی راستہ بند نہیں ہوا، دلائل 10 دن دیں یا ایک ماہ دیں۔ ابھی نیب کے دلائل کے بعد آپ نے بھی جوابی دلائل دینے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کے لیے بھی ابھی دروازے کھلے ہیں، جب آپ بولنا چاہیے بول سکتے ہیں، اس کیس کو آگے کیسے لیکر چلیں، آپ نے دلائل دینے ہے یا نیب نے؟
نیب پراسیکیوٹرعثمان راشد نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر دلائل دینا شروع کر دیے۔
نیب پراسکیوٹرنے عدالت کو بتایا کہ ایک ہی چارج میں تینوں ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ 6جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے اس ریفرنس میں سزا سنائی۔
عدالت نے نیب پراسکیوٹرکو ہدایت کی کہ آپ پہلے مرکزی اپیل پر بحث کریں۔
نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ ہم یہاں پر صرف زبانی نہیں بلکہ دستاویزات کے ساتھ سب کچھ جمع کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے جو دستاویزات بنانے ہیں وہ آپ عرفان قادر کو بھی کاپی مہیا کریں۔ کیا آپ نے یہ چھ ہزارصفحات پڑھے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا جی! تمام چھ ہزارصفحات پڑھے ہیں۔ میں جو بھی دلائل دوں گا وہ پیپربکس سے دوں گا۔
نیب پراسیکیوٹرنے عدالت کو بتایا کہ نیلسن اورنیسکول دونوں برٹش آئرلینڈ ورجن آف شور کمپنیاں ہیں۔ دونوں آف شور کمپنیوں کی بنفیشری ملکیت مریم نواز کے ساتھ ہیں جو 1993 میں بنی ہیں۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا2 فروری 2006 کا ٹرسٹ ڈیڈ ہے جس پر کیپٹن صفدر نے بطور گواہ دستخط کیے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا ان کمپنیوں کے دستاویزات پر مریم نواز کی دستخط موجود ہیں؟ میڈیا اورلوگوں نے کیا کہا ہمیں کوئی لینا دینا نہیں، جو والیمز ہیں ان کو دیکھنا ہے۔ نواز شریف کے اوپرالزام کیا ہے؟ اپارٹمنٹ لینا توکوئی غلط نہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگرمرکزی ملزم کیخلاف شواہد نہیں ہوں گےتو بینیفشری کے خلاف کیس کیسے ہوگا؟ آپ کا کہنا ہے کہ دونوں کمپنیوں کی مالک مریم نواز ہیں؟
عدالت نے مذید کہا کہ سوال یہ ہے اگر کوئی والد اپنی بیٹی کو کچھ دیتا ہو تو کیا کرنا ہوگا؟ آف شور کمپنیوں کا طریقہ کار الگ ہے۔ کسی بھی کمپنی کی ڈائریکٹ ملکیت نہیں ہوتی، آپ نے شواہد سے بتانا ہے کہ یہ کمپنی کس کی ہے؟
عدالت نے نیب سے استفسارکرتے ہوئےکہا کہ بیئرشیئرکرسٹلائن کی وضاحت کرے اسکا مطلب کیا ہے؟ نیب پراسکیوٹر اپنے کہیں الفاظ سے اعلم نکلے، کہاں انگریزی کا لفظ ہے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اہم سوال کمپنی ملکیت اور ٹرسٹ ڈیڈ کا ہے، وہ بتائیں۔
نیب پراسکیوٹرنےعدالت کو بتایا کہ مریم نواز شریف نے کمپنی ملکیت کے حوالے سے حقائق چھپائے۔ مریم نواز کا کوئی سورس آف انکم نہیں۔ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے مل کر آف شور کمپنیاں بنائیں اورحقائق چھپائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے نیب سے استفسار کیا کہ اگر مرکزی ملزم سورس نہیں بتاتا تو کیا بنفیشری اونر سورس بتائے گا؟ مریم نواز نے اپنی دفاع میں کیا جواب دیا؟
نیب پراسکیوٹرنے کہا کہ یہاں جو باتیں اٹھائی گئی یا ہوں گی اس میں اکثریت ہوچکی ہے۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نےجو فیصلہ دیا وہ ایک رائے ہے، ٹرائل ایک الگ چیز ہے۔ ٹرائل ہونا ہے اوراس میں پراسیکیوشن نے ہرچیزبتانی ہیں۔
عدالت نے نیب پراسکیوٹر کو ہدایت کی کہ مریم نواز نے دفاع میں کیا کہا وہ بتائیں؟ یہ لیکس کب ہوئے اور پبلک ہوئیں؟
نیب پراسکیوٹرنے عدالت کو بتایا کہ یہ ساڑھے گیارہ ہزار پیپرز لیکس ہوئے۔ آئی سی ایف جے نے دنیا بھر سے یہ دستاویزات جمع کرکے لیک کیے۔ پاناما پیپرز کے لیک ہونے سے مریم نواز کی آف شورکمپنیاں منظرعام پر آئیں۔
عدالت نے کہا کہ کیس شروع ہونے سے پہلے ہمیں پتا ہونا چاہیئے کہ دفاع میں کیا کہا گیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان عدالت کو پڑھ کر سنایا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو سوال پوچھا گیا اس کا جواب یہ نہیں۔ پراپرٹیز کی ملکیت مریم نواز کی نہیں وہ کمپنی کی ہے۔ کیا کمپنی کی ملکیت مریم نوازنے قبول کرلی یا نہیں؟
نیب پراسکیوٹرنے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز نے ملکیت قبول کرنے سے انکار کیا مگر خود کو ٹرسٹی قبول کیا ہے۔
عدالت نے پراسکیوٹر نیب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست کس نے دائر کی تھی؟ آپ کا کیس ہے کہ وہ بنفیشل اونرہے جبکہ وہ خود کو ٹرسٹی مانتی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اب آپ نے 342 کے بیان اور شواہد سے عدالت کو بتانا ہے۔ پورا کیس 2لائنوں کا کیس ہے۔ آپ نے پہلے ملکیت ثابت کرنی ہے، اس کے بعد بینیفشری اونراورٹرسٹی ثابت کرنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ کیس گفٹ آف اونرشپ کانہیں، دستاویزات دکھائیں آپ کا کیس کیا ہے اور آپ نے کیا ثابت کرنا ہے۔ کریمنل کیس ہے پہلے آپ نے ثابت کرنا ہے انہوں نے بعد میں جواب دینا ہے۔
نیب سے استفسار پر عدالت نے مذید کہا کہ ایک خط پردو جواب، کیا یہ شواہد ہے؟ آپ سے باربار پوچھ رہے ہیں آپ کو ملکیت کا ثبوت لانا ہے۔ آپ کسی کے خط پر کسی کو الزام نہیں دے سکتے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس توفوٹو کاپی آئی ہوں گی اوریجنل تونہیں۔
پراسیکیوٹرنیب نے عدالت کو بتایا کہ اصلی دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز کی اپیل پرڈیڑھ گھنٹے کے سوالات کے بعد نیب نے کہا کہ ہم نےعدالت کے پوائنٹس نوٹ کرلیے آئندہ تاریخ پر تیاری کے ساتھ آئیں گے۔
نیب کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ اپیلوں پرسماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
