بھارت اس وقت چین اور امریکہ کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
بھارت کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور اپنی توانائی کی بڑھتی ضروریات کے لیے کوئلے اور تیل پر انحصار کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا میں پھیلانے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
گلاسکو سمٹ کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نے 2070 تک گرین ہاوس گیس کو زیرو تک لے جانے کا وعدہ کیا ہے تاہم ماہرین اتنی طویل مدت کا ٹارگٹ دینے پر تنقید کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدف حاصل کرنا بھی اس لیے مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ اس وقت تک بھارت میں ہر سال ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔
نریندر مودی نے 2030 تک اپنی معیشت میں کاربن کی شدت کو 45% تک کم کرنے کی بات کی ہے لیکن یہ بھی زیادہ اہمیت اس لیے نہیں رکھتی کہ کاربن کی شدت کم کرنے سے ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کی مجموعی صلاحیت کم ہونا یقینی نہیں ہوتا۔
معیشت کے پھیلاو کی وجہ سے حالیہ برسوں میں بھارت کا فوسل ایندھن پر انحصار بڑھ رہا ہے جو گرین ہاوس گیس پھیلنے کی بنیادی وجہ ہے۔
دنیا کے دوسری بڑی آبادی والے ملک میں قدرتی گیس کی وجہ سے 2.5 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے، تیل کے استعمال سے 2.0 ارب ٹن، کوئلے سے 1.5 ارب ٹن جبکہ توانائی کے دیگر ذرائع کے باعث 500 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھیلتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے انٹرگورنمنٹل پینل (آئی پی سی سی ) کے مطابق کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ 2050 تک تمام ممالک گرین ہاوس گیسز کا پھیلاو صفر کر دیں۔
بھارت اس ہدف کے حصول کے بجائے 2070 تک گیسز کا پھیلاو صفر تک کرنے پر مصر ہے جو تمام ممالک کے لیے تشویشناک بات ہے کیونکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنا ہدف اس سے بہت کم رکھا ہوا ہے۔
بھارتی حکومت نے کئی بار اپنے اس عہد کو دہرایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا تیسرا حصہ جنگلات کے لیے مختص کرے گا مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں کیے گئے۔
اس کے برعکس شجرکاری اور جنگلات میں اضافے کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی کاوشوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔
گلوبل فاریسٹ واچ نے اندازہ لگایا ہے کہ 2001 سے 2020 کے درمیان بھارت میں 18 فیصد جنگلات اور 5 فیصد درخت کم ہوئے ہیں، ان اعدادوشمار کی روشنی میں بھارت کے عالمی سطح پر کیے گئے تمام وعدے غلط ثابت ہوتے ہیں۔
2015 کے پیرس معاہدے میں 197 ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ کا اضافہ کسی صورت نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اس وقت کاربن کا پھیلاو روکنے میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پہلی رکاوٹ ان ممالک کی جانب سے ہے جو تیزی سے معاشی ترقی کر رہے ہیں، اگر وہ اپنے کارخانوں کی پیداوار کم کرتے ہیں تو معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوتی ہے۔
دوسری بڑی وجہ صنعتی یونٹس کو کاربن فری ذرائع پر منتقل کرنے کے اخراجات ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے لیے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ ایسے ممالک کو فنڈز فراہم کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرے جو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کا ٹین بلین ٹری سونامی ایسا ہی پراجیکٹ ہے جس نے عالمی سطح پر ایک شاندار ماڈل پیش کیا ہے، ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان جیسے ممالک کا ساتھ دینا چاہیئے تاکہ معاشی ترقی کی دوڑ میں وہ کاربن پھیلائے بغیر دیگر ممالک کے شانہ بشانہ شامل رہ سکیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
