
تحریر: حسن نقوی
ریاستی اداروں کے خلاف الزامات، حکومت مخالف تقاریر، تنازعات، تردیدیں اور ایک مفرور سابق وزیراعظم کی تقریر۔۔ تیسری عاصمہ جہانگیر کانفرنس انسانی حقوق کی صورتحال پر کسی معلوماتی اور سیاق و سباق پر مبنی مباحثے کے بجائے ان منفی وجوہات کے باعث زیادہ توجہ کا مرکز رہی۔
نومبر 2021 کو لاہور میں منعقد ہونے والی کانفرنس کی “پراپیگنڈہ نوعیت” نے اسے سیاسی طور پر ناراض عناصر کا ایک بڑا اجتماع بنا دیا، یہ وہ عناصر ہیں جنہیں یورپی یونین ، نیدرلینڈ اور کینیڈا کی طرف سے کھلے عام حمایت اور مالی امداد فراہم کی گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حکومت، بلکہ بہت سے آزاد تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے اس سارے معاملے کو غیرممالک کی جانب سے فنڈ کیا گیا شو قرار دیا، جس کا مقصد بنیادی طور پر انسانی حقوق کی آڑ میں ریاستی اداروں کو برا بھلا کہنا تھا۔
اس متنازع تقریب کے معاملات سے باخبر ذرائع نے بول نیوز کو بتایا کہ تقریب کے شرکا میں یورپی یونین، ہالینڈ اور کینیڈا کے نام بطور مدعوئیں اور ڈونرز اور سپانسرز ان کا ایجنڈا دکھانے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا کسی اور ملک میں ہوتا تو ایک سفارتی تنازع جنم لے سکتا تھا مگر پاکستان کی قوت برداشت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
البتہ 23 نومبر کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈھکے چھپے انداز میں کانفرنس کی غیر ملکی فنڈنگ کی جانب اشارہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے معمول کے ہفتہ وار اجلاس کے بعد فواد چوہدری نے پاکستانی میڈیا کو بتایا کہ لاہور اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کو بیرون ملک سے فنڈز فراہم کیے گئے تھے۔
فواد نے کہا کہ کابینہ میں غیر ملکی فنڈڈ کانفرنس کے معاملے پر بھی بات ہوئی، وفاقی وزیر شیریں مزاری نے دفتر خارجہ سے کہا کہ ویانا کنونشن کے سیکشن 41 کے تحت تمام ڈونرز سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان کی حیثیت کی تصدیق کی جاسکے۔
جواب میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی بڑی بیٹی اور کانفرنس کے اہم منتظمین میں سے ایک منیزے جہانگیر نے کہا کہ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر رہا کہ کانفرنس غیر ملکی فنڈڈ تھی۔
انہوں نے بول نیوز کو بتایا کہ ہم نے کانفرنس میں عطیہ دہندگان کے نام نمایاں رکھے کیونکہ یہ ان کا مطالبہ تھا۔
منیزے نے مزید سوال اٹھایا کہ کیا ان کی وزارتیں بشمول شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق کو مختلف منصوبوں کے لیے غیر ملکی فنڈز نہیں دیے جاتے؟
انہوں نے ماضٰی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری اور شیریں مزاری، دونوں نے 2019 میں غیر ملکی عطیہ دہندگان کے نام والے بورڈز اور پلے کارڈز کے سامنے کھڑے ہو کر کانفرنس میں کہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کی میراث محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
تاہم، لاہور میں مقیم تجزیہ کار احسن رضا، جو کانفرنس کے دونوں ایام میں موجود تھے، نے کہا کہ AJConf-21 پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عاصمہ جہانگیر اور ان کی میراث کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کا جلسہ اور این جی اوز کا شو زیادہ تھا۔
احسن رضا کے مطابق سڑک کنارے بنے ڈھابوں پر جانے والے لوگوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک فائیو اسٹار ہوٹل؟ تقریب کا وینیو ہی اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ لیکن یہ غریب لوگوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے اشرافیہ کا ایک شو تھا۔ ایک ہی چھت کے نیچے اتنے تضادات۔ یہ تقریب بہتر ہو سکتی تھی اگر اس میں متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے۔”
رضا نے مزید کہا کہ یہ ہر طرح سے کارپوریٹ لوگوں کے لیے ایک کارپوریٹ میلہ تھا۔ اگر عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتیں تو وہ یقیناً اس خیال کو مسترد کرتیں۔
رضا نے کہا کہ شاید وہ پریس کلب، ڈھابے یا HRCP کے پبلک ہال میں ایسی تقریب منعقد کرتیں۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں میڈیا پڑھانے والے ڈاکٹر حسن شہزاد نے کہا کہ یورپی یونین کانفرنس کے لیے مرکزی ڈونر ہونے پر فخر کرتی رہی ہے، جب کہ کینیڈا اور ہالینڈ نے بھی اس کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے۔ تینوں سفیروں نے وہاں تقاریف بھی کیں۔
ڈاکٹر شہزاد نے کہا کہ ہر وہ شخص اس کانفرنس میں موجود تھا جو پاکستان میں غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے پراجیکٹس چلانے کے کاروبار میں ہے۔ یہ تقریب عطیہ دینے والوں اور عطیے کے تلاش میں پھرنے والوں کے میلے کی طرح لگ رہی تھی، سوال یہ ہے کہ عطیات کس کے لیے ہیں؟
شہزاد کا کہنا تھا کہ عطیات کا مقصد عمومی طور پر صنفی امتیاز، ناخواندگی، چائلڈ لیبر، موسمیاتی تبدیلی اور غربت کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے، تو کیا منتظمین اس سلسلے میں ضروری اقدامات کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پچھلی کئی دہائیوں سے چندہ لینے والوں نے ملک بھر میں ایک قسم کا جال بنا رکھا ہے۔ جب بھی وہ کوئی نیا پروجیکٹ حاصل کرتے ہیں، ایسے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہیں جو ان چیلنجوں کو پورا کرنے میں پائے جانے والے خلا کو ظاہر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کی تیار کردہ تجاویز ان خلا کو کیسے پُر کریں گی۔
شہزاد کے مطابق تجزیاتی ثبوت گھڑے جاتے ہیں، طبقات کو متحرک کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور صنفی توازن میں کامیابی جیسے معاملات کو صرف کاغذوں پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ سالوں بعد، یہ خلاء دوبارہ پیش کر کے ان سماجی مسائل کے حل کے لیے مزید فنڈز کی درخواست کی جاتی ہے جو اس سے قبل بہت سے دوسرے منصوبوں میں کاغذوں میں ٹھیک ہو چکی ہوتی ہیں۔
انہوں نے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اور کینیڈا کی طرف سے ایسے اشرافیہ کی تقریبوں کی فنڈنگ عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2021 پر تنقید کرتے ہوئے، پالیسی تجزیہ کار عائشہ سعید نے کہا کہ بد قسمتی سے بعض سیاست دانوں، علیحدگی پسند عناصر اور یہاں تک کہ بعض ماہرین تعلیم کا ریاستی اداروں کو کوسنا ایک معمول بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے عدلیہ کے کچھ افراد اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان ریاستی اداروں پر ظالم اور موجودہ حکومت کے معاون ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ “ریاستی اداروں” کی تعریف مختلف ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں یہ اصطلاح فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
تاہم عائشہ کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے غیر ملکی سپانسرز اور مقررین کی شمولیت نے کچھ لوگوں میں تشویش ضرور پیدا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران، حکومت نے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث متعدد غیر ملکی تنظیموں کے دفاتر کو بند کر دیا ہے جو این جی اوز کی آڑ میں کام کر رہے تھے۔
ڈاکٹر شہزاد سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یورپی یونین جیسے بین الاقوامی اسپانسرز کی شمولیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کانفرنس کے منتظمین کو ایونٹس کی تفصیلات پہلے سے فراہم کرنا چاہئیں۔
اگرچہ کسی ملک میں تعینات بہت سے نمائندے اور سفیر اس طرح کے اجتماعات سے گریز کرتے ہیں، تاہم تقریب میں خطاب کرنے والی دیگر اہم شخصیات اور خصوصاً برطانوی ہائی کمشنر کی موجودگی نے یقیناً بہت سے سوال اٹھائے ہیں، اسی وجہ سے دفتر خارجہ نے اس معاملے پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
عائشہ نے کہا کہ مقامی حکام نے اگرچہ کانفرنس کی اجازت دی تھی لیکن یہ ایک ایسی سیاسی کانفرنس بن گئی جس کا مقصد حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران دیئے گئے بیانات اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی تحریک کو انسانی حقوق کا رنگ دینے کی کوشش لگتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس طرح کانفرنس نے نواز شریف کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کانفرنس کے منتظمین اور ان کی پارٹی قیادت نے مل کر کام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کانفرنس کے منتظمین کو دی گئی رقم کے بارے میں علم نہیں ہے، لیکن جس طرح کانفرنس کو ہمارے شو میں تبدیل کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ ضرور کچھ خفیہ ادائیگیاں کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News