پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جنہیں ہم نہیں بُھلا سکتے مگر ایک ایسا واقعہ جس نے پوری قوم کر رُلا دیا وہ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں پیش آنے والا سانحہ ہے۔
یوں تو ہم کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے پاکستان کے لیے نذرانہ پیش کیا لیکن اس دن اس ملک نے اپنے پیارے اور معصوم بچوں کو کھویا، وہ ایک ایسا لمحہ تھا جب پورے ملک کے شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب یا قوم کے ہوں، سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، سب کو اس تصور نے رلا دیا کہ وہ بچے جو اسکول گئے وہ اب کبھی اپنے گھروں میں واپس نہیں لوٹیں گے۔
سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو اس واقعہ سے غازی بن کے نکلے ہیں کیا وہ اس واقعہ کو بھلا سکے ہیں؟

اس دلخراش سانحہ میں بچ جانے والے طلباء آج کس مقام پر ہیں؟ وہ اپنے ان دوستوں کو کس طرح یاد کرتے ہیں جنہیں انہوں نے واقعہ پشاور میں کھویا تھا، کیا وہ اس ڈراؤنے خواب سے نکل پائیں ہیں جسے انہوں نے دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا تھا۔
سانحہ اے پی ایس میں زندہ بچنے والے طالب علم عاکف عظیم نے ایک نجی چینل کو انٹرویو میں بتایا کہ اس حادثے نے میری زندگی بدل دی، سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے اپنے ایک دوست زین کے بارے میں بتایا کہ پیپر شروع ہونے سے قبل اُن دونوں کی ملاقات ہوئی تھی اور پیپر کے بعد پارکنگ میں ملنے کا وعدہ لیا تھا، تاہم دہشت گردوں کے حملے کے بعد وہ شہید ہوگیا۔
عاکف عظیم نے گفتگو کر تے ہو ئے بتایا کہ 2014 میں وہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں بارہویں جماعت میں پری میڈیکل میں زیر تعلیم تھے، انہوں نے بتایا کہ اس تاریک دن اُن کا کیمسٹری کا پیپر تھا، وہ ہال سے نکل کر واش روم گئے تو پیچھے سے دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔
جب انہیں گولیوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو وہ کلاس روم کی جانب بھاگے اور وہاں تین بجے تک چھپے رہے، عاکف اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی سے کچھ ہی دنوں میں کلینیکل سائیکولوجی میں گریجویٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان مضامین کا انتخاب انہوں نے اے پی ایس سانحے کے رونما ہونے کے بعد ہی کیا۔’جب انسان کی موت کا منظر اس کے سامنے آتا ہے تو اس کی سب خواہشات آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں ‘عاکف نے بتایا کہ انہوں نے صدمے، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے نکلنے کے لیے ایک کتاب لکھی ہے ، وہ موٹیوشنل اسپیکر بھی بن گئے ہیں۔
احمد نواز بھی ان بچوں میں شامل ہیں جو سانحہ اے پی ایس میں بچ گئے تھے۔ جب انہیں اسپتال لایا گیا تو یہ شدید زخمی تھے، انہیں بہتر علاج کے لیے برطانیہ بھیجا گیا جہاں یہ اب تک مقیم ہیں۔ انہوں نے تفصیلی گفتگو کوتے ہوئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب ہم اسکول پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ آج تمہیں فرسٹ ایڈ ٹریننگ دی جائے گی جس کے لیےسارے بچے ہال میں جمع ہورہے تھے۔ سو ہم بھی ہال کی طرف چلے گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ کچھ لوگ اسلحہ سے لیس ہماری طرف آرہے تھے۔ ہم نے سوچا چونکہ “فرسٹ ایڈ ٹریننگ” کا کہا گیا ہے اس لیے یہ سب اسی کے لیے ہوگا مگر وہ مسلح افراد ہال میں داخل ہوئے انہوں نے دروازوں کی طرف فائر کھول دیے جسکے نتیجے میں بہت سارے بچے وہیں ڈھیر ہوگئے۔
ہم کرسیوں کے نیچے چھپ گئے لیکن انہوں نے باری باری چھپے ہوئے بچوں کو بھی سر پر گولیاں مارنا شروع کردیں۔ جب میرے قریبی بچے کو گولی ماری گئی تو سارا گن پاؤڈر میرے منہ پر گرگیا، جوں ہی مجھ پر فائر کیا گیا تو میں نے اپنا سر کرسی کے اندر دھکیل دیا اور یوں گولیاں میرے سر کے بجائے بائیں ہاتھ پر جا لگیں کچھ دیر بعد میرا فون بجنا شروع ہوا غالباً ابو کی کال تھی، میں نے اپنا فون قریب جلتی ہوئی آگ میں پھینک دیا اور دوبارہ نعشوں میں چھپ گیا۔

دوبارہ وہ دہشگرد واپس آئے اور جو بچے زخمی حالت میں چیخ رہے تھے ان پر دوبارہ فائر کھولے مگر میں نے خود کو مردہ سمجھا اور شدید درد کے باوجود بھی خاموش رہا، بالآخر جب یہ سب ختم ہوگیا تو ہمیں باہر سے آوازیں آئیں۔ ہم نے دیکھا کچھ لوگ ہماری طرف دوڑ رہے تھے۔ مجھے بھی ایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔ اس میں سب مردہ بچے تھے، میں نے آواز لگائی کہ میں زندہ ہوں اس کے بعد مجھے اسپتال لے جایا گیا۔
اپنے شہید بھائی حارث نواز سے آخری رات ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ اے پی ایس سانحے سے ایک دن قبل جب ہم اسکول سے اپنے گھر واپس آئے تو پتا چلا کہ ہمارے گاٶں میں ہمارے کوئی رشتہ دار فوت ہو گئے ہیں۔ لہٰذا امی، ابو اور ہمارا چھوٹا بھائی “عمرنواز” وہاں چلے گئے۔ ابو رات کو تقریبا ایک بجے واپس آگئے تو دیکھا حارث ابھی تک جاگ رہا تھا۔ انہوں نے جاگنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ چونکہ امی گھر نہیں ہیں تو وہ اگلے روز سکول جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ابو غصہ ہو گئے اور اسے فوری طور پر سونے کا کہا تاکہ اگلی روز جلد اٹھ کر سکول جا سکے۔ اگلے روز جب ہم سکول جا رہے تھے تو وہ مجھ سے بہت لڑ رہا تھا۔ کاش ہمیں پتا ہوتا کہ آج کے بعد وہ کبھی واپس نہ آئے گا تو ہم اسے کبھی زبردستی سکول نہ بھیجتے۔
احمد نواز نے بتایا کہ پاکستان میں جب میں اسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا تو میرے والد سے اسپتال کے ایک ڈاکٹر نےکہا کہ آپکا ایک بیٹا حارث نواز شہید ہو چکا ہے اور دوسرا بیٹا شدید زخمی ہے۔ آپ اسے جلد ازجلد بیرون ملک علاج کیلئے لے جائیں۔ میرے والد کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ انہوں نے ہر کسی سے میرے علاج کیلئے منت سماجت کی مگر انہیں صرف ناامیدی ہی ملی۔ آخرکار ابو نے مایوس ہو کر کہا کہ اگر احمد نواز کو علاج کیلئے نہ بھیجا گیا تو میں احمد کو ایمبولینس میں ڈال کر وزیراعظم ہاٶس کے سامنے لے جا کر احتجاج کروں گا۔ اس بیان پر پوری پاکستانی قوم یہاں تک کہ مختلف ممالک سے کالیں آئیں۔ پھر اس وقت وفاقی حکومت حرکت میں آئی، ہمارے ویزے جاری کیے گئے اور سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف نے میرے علاج کیلئے دو لاکھ پاٶنڈ یہاں اسپتال میں جمع کرائے اور مجھے یہاں علاج کے لیے بھجوایا گیا۔
احمد نواز نے ایک بڑا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے انہوں نے اس بارے میں بتایا کہ میں نے ایک جگہ نیوز دیکھی کہ یہاں کے بچے اسکولوں سے بھاگ کر داعش میں شامل ہورہے ہیں تو میں نے سوچا کہ مجھے یہاں اسکولوں میں جا کر اپنی کہانی سنانی چاہئے تاکہ ان بچوں کو غلط طرف جانے سے روکا جائے۔ میں نے ایجوکیشن اینڈ پیس کے نام سے ایک مہم شروع کی اور اس کے ذریعے برطانیہ کے اسکولوں میں جا کر اپنی کہانی سنائی۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہاں کے میڈیا کو اس بارے علم ہوا تو انہوں نے اسے بڑی کوریج دی اور یوں وزیراعظم تھریسہ مے نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کام اربوں پائونڈز لگا کر نہ کرسکے، وہ آپ نے بنا پیسے کے کردکھایا۔ یہاں کے نوجوان آپ سے بہت متاثر ہیں، آپ اپنا یہ کام جاری رکھیں۔
احمد نواز کہتے ہیں کہ مجھے اپنے ملک و قوم کیلئے کچھ کرنا ہے، ابھی میں اے لیول میں ہوں اور اعلی تعلیم کے بغیر ملک کی خدمت کرنا ممکن نہیں لہذا میں اپنی تعلیم مکمل کرکے ضرور پاکستان واپس جاؤں گا۔
یاد رہے کہ احمد نواز کی محنت بالآخر رنگ لے آئی، انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کی یونین کا خرانچی منتخب کرلیا گیا۔

سانحہ اے پی ایس میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے طالب علم ملک حسن طاہر اعوان کی روداد آج ہم ان ہی زبانی آپ کو بتاتے ہیں جنہوں نے اس المناک واقعے میں اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھویا۔
ملک حسن طاہر اعوان سانحہ اے پی ایس کے شہداء میں شامل ’ملک اسامہ طاہر اعوان‘ کے بھائی ہیں ، ملک حسن طاہر اعوان خوش قسمتی سے دہشتگردوں کی گولی کا نشانہ بننے کے باوجود ،اسکول سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے ۔
حسن طاہر اعوان نے بتایا کہ آڈیٹوریم جاتے ہوئے عقبی قطار میں لگے اسامہ (بھائی) کی آخری مسکراہٹ آج بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی ، ملک حسن کہتے ہیں وہ ملاقات میری اور اسامہ کی آخری ملاقات تھی ۔
حسن نے بتایا کہ اس کے فوراً بعد ہی انہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آڈیٹوریم سے بھاگنے کی کوشش کی جس میں میرے جوتے بھی اتر گئے، شوز لینے جب میں واپس مڑا تو دہشت گرد کی نظروں میں آگیا اور اس نے مجھے اور میرے دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کو نشانہ بنایا میرے دونوں ساتھی اس کی گولی کا نشانہ بن گئے۔
دہشت گرد کی اگلی گولی میرے لیے تھی لیکن خوش قسمتی سے وہ گولی میرے سر پر لگنے کے بجائے میری اوپر ہوئی کیپ پر لگی اور وہ اڑگئی جس کے باعث میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
حسن طاہر کہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحے میں بچ جانے والے طالبعلموں کے لیے اس سانحہ کو بھلانا ناممکن ہے، اس واقعے کے ہر ذہن پر انمٹ نقوش تاحیات موجود رہیں گے۔
ملک حسن نے ہمیں بتایا کہ اس سانحے کے تقریباً ایک ماہ بعد جب اسکول دوبارہ جانا شروع کیا تو ہر شے اجنبی اجنبی سی لگی اب نہ پڑھنے کو دل کرتا تھا نہ کھیلنے کودنے کو، سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ ٹیچرز کیا پڑھا رہے ہیں۔ ہر لیکچر کو گھنٹوں بار بار پڑھنا پڑتا تب بھی وہ دماغ میں نہ بیٹھتا کیونکہ وہاں صرف آڈیٹوریم میں سانحے کے دن گرا دوستوں کا خون اور بھائی کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے رہتا۔
حسن کہتے ہیں کہ اب تو جینے کا اصل مقصد ہی بھائی (اسامہ) کے مقصد کی تکمیل کرنا ہے، اسامہ وطن عزیز کے لیے ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کے تحت مسلح دہشت گردوں کے اجتماعی جگہوں پر داخلے سے قبل سکیورٹی اداروں کو آگاہی حاصل ہوسکے تاکہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی لائی جاسکے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News