غذائیت سے متعلق، ٹوکیو میں منگل کے روز سے شروع ہونے والے دو روزہ بین الاقوامی اجلاس میں توقع ہے کہ افغانستان کا موضوع سرِفہرست ہوگا۔ انسانی امداد کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس ملک میں تقریباً 30 لاکھ بچے غذا کی انتہائی کمی کا شکار ہیں۔ یہ تنظیمیں دنیا پر زور دے رہی ہیں کہ مدد فراہم کریں۔
افغانستان میں طالبان کو دوبارہ اقتدار سنبھالے ہوئے تقریباً 4 ماہ ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ خشک سالی اور کئی دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کے باعث بچے غذا کی انتہائی کمی کا شکار ہیں۔
انسانی امداد کی عالمی تنظیم کی قائم مقام ملکی سربراہ نورا حسنین نے بین الاقوامی میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ’بچے انتہائی بھوکے اور بیمار ہیں۔ اور میرے خیال میں سب سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ ماؤں کے چہروں پر مایوسی ہے اور وہ خود کو ناکام تصور کر رہی ہیں۔ کوئی بھی ماں ناکام نہیں ہونا چاہتی۔ ہر ماں اپنے بچے کو زندہ اور صحتمند رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بہت افسردہ صورتحال ہے‘۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ افغانستان کی نصف آبادی کو سنگین غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہوگا۔
انسانی امداد کی تنظیمیں، بچوں اور حاملہ خواتین کو ہنگامی غذائی امداد فراہم کر رہی ہیں، لیکن فنڈز کی قلت ایک بڑا چیلنج ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
