
شہزاد اکبرنے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف عدالت میں جمع ایف آئی اے کا چالان بڑا موڑ ہے جس پر پراسیکیوشن شروع ہو سکتی ہے۔
لاہورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر وزیراعظم پاکستان برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ان لوگوں نے اعلیٰ سیاسی عہدوں کا استعمال کرتے ہوئے ایسے جرائم کیے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان آج گرے لسٹ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے چالان میں چارہزار تین سو دستاویزی ثبوت ہیں اور سو سے زائد گواہ ہیں اور ساٹھ کے قریب معاملات ہیں۔ شہباز شریف اس سے قبل بھی نیب کی تفیتیش میں منی لانڈری کے مرتکب پائے گئےاور اب ایف آئی اے کے چالان میں نہ صرف مرتکب پائے گئے بلکہ گروہ کےسرغنہ بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حدیبیہ کیس کی طرح یہاں بھی بےنامی اکاؤنٹس استعمال کیے گئے ہیں۔ وہ کیس ٹینکیکل بنیادوں پر ختم ہوا تھا، میرٹ پر نہیں۔ اس کیس میں شہبازشریف اورحمزہ شہباز دیگر لوگوں سمیت سولہ ارب کی منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے۔ ان لیگل اور کرپشن کے زمرے میں آنیوالے اٹھائیس اکاؤنٹ استعمال کیے گئے۔
اٹھائیس اکاؤنٹس رمضان شوگرمل کے چھوٹے ملازمین کے نام کھلوائے گئے
شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ تمام اٹھائیس اکاؤنٹس رمضان شوگرمل کے چھوٹے ملازمین کے نام کھلوائے گئے۔ اُس دورانیے میں شہباز شریف وزیراعلی تھے۔ بینک میں کوئی بھی اکاؤنٹ کھولنے کے لیے سیلری سلپ یا دستاویز چاہیے ہوتی ہے۔ جب کسی اکاؤنٹ میں سیلری یا متبادل ذرائع سے زیادہ پیسوں کی ٹرانزیکشن ہو تو وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ان اکاؤنٹس میں سترہ ہزار ٹرانزیکشنز ہوئیں ہیں۔ اس لیے چالان مکمل کرنے میں ایک سال لگا۔ شریف خاندان نے ایف آئی اے کی تحقیقات میں کوئی تعاون نہیں کیا۔ میڈیا میں کہتے رہے یہ شوگر کاروبار سے متلعقہ تھیں مگران اکاؤنٹس کی ایک بھی ٹرانزیکشن کا تعلق شوگر کے کاروبار سے نہیں ہے۔
مشیر برائے احتساب کا کہنا تھا کہ گلزار احمد نامی شخص جو رمضان شوگر مل میں چپڑاسی تھا، اس کے اکاؤنٹ میں پانچ ملین کا چیک جمع ہوتا ہے۔ یہ پیسے اورنگزیب بٹ کے اکاؤنٹ سے جمع ہوتے ہیں جس کا تعلق شہباز شریف سے ہے۔ اس اکاؤنٹ میں ٹوٹل ٹرانزیکشن ایک ارب روپے کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اورنگزیب بٹ گجرات کی بیوٹیفیکیشن کا سربراہ بنایا گیا اور تمام ٹی ایم اے اور ڈی سی کو ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ اورنگزیب بٹ اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکا ہے کہ میں نے پارٹی فنڈ کے پیسے دیے تھے۔
شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ پارٹی فنڈ کے پیسے گلزارکے اکاؤنٹ میں کیوں آتے ہیں۔ دوسرا اس اکاؤنٹ کے ساتھ مسرورانور کا تعلق ہے جو ان کے پرسنل اکاؤٹنٹ ہیں۔ انہوں نے یہ پیسے کیش نکال کر شہباز شریف اور حمزہ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔
سندھ والا تو بدنام تھا یہاں تو خادم اعلی منی لانڈرنگ والا نکلا
مشیر وزیراعظم نے مزید کہا کہ گلزار دوہزار پندرہ میں فوت ہو گیا مگر دو ہزار اٹھارہ تک یہ اکاؤنٹ چلتا رہا۔ بالکل سندھ کی طرز پر یہ فیک اکاؤنٹ چل رہے تھے۔ بے چارہ سندھ والا تو بدنام تھا یہاں تو خادم اعلی منی لانڈرنگ والا نکلا۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملک مقصود پچیس ہزار ماہانہ کا ملازم تھا جس کے سات اکاؤنٹ میں سات ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوتی ہے۔ شریف فیملی کےنام پرایک اعشاریہ سات ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں۔ اظہرعباس ملازم کے اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ غلام شبراسٹورکیپرکی دس ہزار تنخواہ جبکہ اس کے اکاؤنٹ میں ایک اعشاریہ سات ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ خضر حیات کے اکاؤنٹ میں ایک اعشاریہ چارارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے۔ مقصود انور کی تنخواہ آٹھ ہزارجبکہ اٹھاسی لاکھ کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔ اسی طرح ظفر اقبال کی تنخواہ چودہ ہزار ہے اور ٹرانزیکشن اٹھارہ کروڑ روپے ہوتی ہے۔
شہباز شریف اس پورے کام کے جد امجد ہیں۔
ان کے مطابق ملازمین کے لیے شرط تھی کہ آپ نے خاموش رہنا ہے جبکہ چیک اور کارڈ ان سے لے لیے گئے تھے۔ وہ ملازمین معاشی طور پر مجبور تھے۔ شہباز شریف اس پورے کام کے جد امجد ہیں۔ نوے میں بھی حدیبیہ پیپیر مل کیس میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے ٹی ٹی کا کاروباردوبارہ کیا جوکہ جرم ہے۔ انہوں نے بے نامی اکاؤنٹس استعمال کیے، اقتدار ختم ہوتے ہی وہ اکاؤنٹس بند کردیے۔
اسحاق ڈار نے اسائلم اپلائی کیا ہوا ہے
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایکٹ 1947 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ اس کی پراسیکیوشن اچھی نہیں ہوگی تو پراسیڈنگ مکمل نہیں ہوگی۔ جب چالان جمع کردیا جاتا ہے توعدالت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوامی مفاد کے کیسز روزآنہ کی بنیاد پرسنے۔ ہماری گزارش ہے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے کہ آپ کو حکومتی سطح پر جو تعاون چاہیے ہم کریں مگر روزانہ کی بنیاد پران مقدمات کی سماعت کی جائے۔ ہم نے چیف جسٹس صاحب کے کہنے پر تیس نئی احتساب کی عدالتیں قائم کردی ہیں۔
مشیر وزیراعظم نے کہا کہ ہم کہیں باہر سے لوگ نہیں لائے اسی پاکستان کے اچھے لوگوں سے سارا کیس انویسٹی گیٹ کروایا ہے۔ ان مقدمات کی لائیو کوریج ہونی چاہیے تاکہ عوام کو پتہ چلے۔ ہم سے عالمی سطح پر پوچھا جاتا ہے کہ آپ منی لانڈرنگ کے خلاف کتنے سیریس ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے پاس مکینکل سا نظام ہوتا ہے میں اس کمیٹی کا حصہ نہیں ہوں۔ اس میں ایک حصہ کیسز کا ہے جس پر وہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے کتنے کیسز فائل کیے اوران کی پراگریس کیا ہے۔
شہزاد اکبرنے بتایا کہ اس کیس کا ایک ملزم برطانیہ میں موجود ہے جس کے پاس نیشنلٹی بھی نہیں ہے۔ ان کے خاندان کے اسحاق ڈار سمیت چار کیسز ہیں۔ ہم نے ایکسٹراڈیشن فائل کی تھی برطانیہ کو کیوں کہ ان کے ساتھ ہمارا کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں تھا۔ ابھی تک بس ایک اسحاق ڈار کے کیس پر ان کے ساتھ ایم او یو ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار نے وہاں اسائلم اپلائی کیا ہوا ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ حمزہ اورعمران کے کیس میں بھی کوئی ایم او یو کریں۔
انھوں نے مذید کہا کہ نوازشریف کا کیس اسحاق اورعمران سے مختلف ہے کیونکہ وہ ملزم نہیں مجرم ہیں۔ برطانیہ کا اپنا قانون کہتا ہے کہ وہ کسی مجرم کو ویزہ نہیں دیتے وہ علاج کے ویزہ پر گئے تھے مگر آج تک کوئی علاج نہیں کروایا۔ ہم نے کورٹس کے فیصلے لگا کر وہاں درخواست بھیجی تھی جس پر ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ان کے ویزے کی ایکسٹینشن نہیں کی تھی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا نواز شریف امیگریشن ٹربیونل میں اپیل لے کرگئے ہیں ابھی ٹربینول کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ نواز شریف کا پاسپورٹ بھی ایکسپائرہو چکا ہے اگر ٹربیونل کا فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو ان کو برطانیہ چھوڑنا پڑے گا۔ میں نے سنا ہے نوازشریف واپس آنا چاہتے ہیں توکوٹ لکھپت جیل میں ان کا بڑا بیتابی سےانتظار ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو چالان جمع کروایا ہے اس میں بینکوں کو ملزم نہیں بنایا گیا۔ ہم اسٹیٹ بینک سے کوشش کریں گے کہ بینکوں کی ریگولیرٹی پر کام کیا جائے۔ ملزم جتنے زیادہ ہوں کیس لمبا ہوجاتا ہے۔ ٹرائل کو ایک سال میں مکمل ہو جانا چاہیے۔ ہم لوگوں نے ججوں اور عدالتوں کی تعداد ہی نہیں بڑھائی۔ ججز بھی مجبور ہیں ایک جج کے پاس کئی کیسز ہوتے ہیں وہ بیچارے کیا انصاف کریں گے۔
کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت نے کریمنل جسٹس پیکج تیار کیا ہے جس کو جنوری میں پارلیمان کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقتدارگرتی جارہی ہیں کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ ہم کو کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنی ہے یہ الیکشن کا نعرہ نہیں معاشرے کی ضرورت ہے۔ اسی کی دہائی کے بعد ہر جگہ کرپشن آچکی ہے جو توہین عدالت بنتی ہے اس پر کورٹ کو دیکھنا چاہیے کہ جس نے باہر جانیوالوں کی ضمانت دی اس کو پکڑیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News