
کراچی میں خطرے سے دوچار 27 انڈس بلائنڈ ڈولفنز کو بچانے کے لیے پہیے حرکت میں ہیں جو 10 مختلف پانی کی نہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نہروں میں پھنسی انڈس بلائنڈ ڈولفنز کی رپورٹ میڈیا کے پاس دستیاب ہے۔
ریسکیو پلان کے مطابق ایک ماہ تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن میں 30 سے زائد افراد حصہ لیں گے، نہروں کی سالانہ بندش 6 جنوری سے شروع ہوئی اور آبی گزرگا ہیں 27 جنوری سے دوبارہ کھلیں گی۔
آپریشن سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ (ایس ڈبلیو ڈی) اور اس کے حکام کی ٹیموں کے ذریعے شروع کیا جائے گا جو میٹھے پانی کی ڈولفن کو محفوظ طریقے سے بچانے میں درپیش چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں، تاہم وہ پراعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اس کام کو پورا کر سکیں گے۔
ایس ڈبلیو ڈی کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا اور بے مثال آپریشن ہے، تمام ڈولفنز کو بغیر کسی نقصان کے بچانے کے لیے تیار ہیں۔
پھنسے ہوئے ڈولفن
سکھر انڈس ڈولفن سینکچری کے اعداد و شمار کے مطابق مختلف مقامات پر کم از کم 27 ڈولفن دیکھی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دادو کینال میں 3، میرواہ کینال میں 3، کیرتھر کینال میں 4، روہڑی کینال میں 6، نارا کینال میں 3، پٹ فیڈر میں 2، گھوٹکی فیڈر میں 4 اور ابوالواہ خیرپور میں 2 ڈولفن دیکھی گئی ہیں۔
مہر نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ ان کے محکمہ کو مالی مسائل کا سامنا ہے لیکن ایس ڈبلیو ڈی کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ آپریشن کو محفوظ طریقے سے کرنے کے لیے کم از کم 3.5 ملین روپے درکار ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ 10 سالوں سے یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ مقامی ماہی گیر مختلف مقامات پر مچھلیوں اور میٹھے پانی کے کچھوؤں سمیت دیگر آبی جانداروں کو مارنے کے لیے زہر کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایس ڈبلیو ڈی کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ صرف ماہی گیر ہی نہیں بلکہ مقامی دیہاتی بھی یہی خطرناک طریقے استعمال کرتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پانی کی نہریں زندگی سے بھری ہوئی ہیں لیکن سالانہ پانی کی نہر کی بندش سے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب ایک اور اہلکار نے انکشاف کیا کہ بندش کے دوران میٹھے پانی کے کئی کچھوے مردہ پائے گئے ہیں، ان کچھوؤں کی دیکھ بھال کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔
جنگلی حیات کے محافظوں کا کہنا تھا کہ سردیوں کا موسم کچھوؤں کے لیے ہائبرنیشن کا وقت ہوتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کوئی بھی ان جانداروں کی حفاظت اور بچاؤ کے بارے میں نہیں سوچتا۔
مہر نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ بندش کے دوران درجنوں کچھوے مردہ پائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے بیشتر اہلکار کچھوؤں اور ڈولفن کی دیکھ بھال کے لیے مختلف مقامات پر تعینات ہیں۔
کچھ اعلیٰ عہدیداروں کا الزام ہے کہ محکمہ ماہی پروری، جس کا بنیادی کام مقامی مافیاز کو مچھلیوں کو زہر دینے سے دور رکھنا ہے، پانی کی نہر کی بندش کے موسم میں غیر فعال رہتا ہے۔
سندھ کے وزیر ماہی گیری عبدالباری پتافی سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم وہ کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر رہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News