
عثمان مرزا ویڈیو وائرل کیس میں متاثرہ لڑکی نے بیان دیا کہ ایک دفعہ بیان دے چکی ہوں، باربارکیوں پریشرائز کیا جا رہا ہے؟ میں کہہ چکی ہوں کہ کسی کو نہیں جانتی۔
ایڈیشنل سیشن اسلام آباد جج عطا ربانی کی عدالت میں عثمان مرزا ویڈیو وائرل کیس کی سماعت ہوئی۔
متاثرہ لڑکی سندس اورلڑکا اسد رضا کوعدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالتی حکم پر پراسیکیوٹر کی درخواست پرکمرہ عدالت میں ویڈیو چلائی گئی۔
جج کی ہدایت پر ویڈیو چلانے قبل کمرہ عدالت سےغیر متعلقہ افراد اور صحافیوں کو باہر نکال دیا گیا۔
مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پرپراسکیوٹررانا حسن عباس نے جرح کی۔
متاثرہ لڑکے نے بتایا کہ میری تعلیم ایف ایس سی اور کوئی کام نہیں کرتا۔ جب یہ واقعہ ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا۔ کیس شروع ہوا تو میں نے پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا۔
اسد رضا نے بیان دیا کہ میری مالی معاملات بہت خراب ہیں اوروالدین میرے مالی خرچہ چلا رہے ہیں۔ اس مقدمہ کے اندراج کے بعد تھانہ گولڑہ میں 4 سے 5 دفعہ گیا تھا۔ 8 جولائی کو میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ صرف سادہ پیپرپرانسپکٹر شفقت نے دستخط لیے تھے۔
پراسیکیوٹررانا حسن عباس نے سوال کیا کہ بیانِ حلفی میں آپ کہتے ہیں ویڈیو میں نظر آنیوالے وہ ملزمان نہیں ہیں، کیا آپ کو واقعہ یاد ہے؟
متاثرہ لڑکے نے جواب دیا کہ جی بالکل مجھے وہ واقعہ یاد ہے جس پر پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں اس دن کیا ہوا تھا؟
اسد رضا نے بیان دیا کہ ابھی میں اس واقعہ کی تفصیل نہیں بتا سکتا، نہ یاد ہے میں نے اورسندس نے کس رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔
بند کمرہ عدالت میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے پچاس منٹ تک جرح مکمل کی۔ جرح مکمل ہونے کے بعد کمرہ عدالت کھول دیا گیا۔
جونئیروکیل نے کہا کہ ملزم عمربلال کے وکیل شیرافضل ہائیکورٹ میں ہیں، ایک بجے تک عدالت پہنچیں گے۔
ملزم حافظ عطا الرحمن کے وکیل ظفروڑائچ کی جرح پر متاثرہ لڑکی سندس نے بیان دیا کہ ایک دفعہ بیان دے چکی ہوں، باربارکیوں پریشرائزکیا جا رہا ہے؟ میں کہہ چکی ہوں کہ کسی کو نہیں جانتی۔
ای الیون لڑکا لڑکی ویڈیو سکینڈل کیس میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل ملک جاوید اقبال وینس عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ میں بیان پڑھنا چاہتا ہوں۔
جج کے حکم پر وکیل ملک جاوید اقبال وینس کو بیان پڑھنے کی اجازت دیدی گئی۔
وکیل جاوید اقبال نے کہا میری حد تک نِل کردیں جس پرجج نے استفسار کیا کہ وکیل جی ظفروڑائچ صاحب آپ کی طرف سے نِل کرنا ہے۔
ملزم حافظ عطاء الرحمان کے وکیل ظفر وڑائچ نے عدالت سے کہا کہ جی میں نے پہلے کہہ دیا تھا نل کروں گا۔
وکیل نے عدالت سے کہا کہ میرا تو معصوم سا ملزم ہے درخواست بھی نہیں دی جس پرجج نے ریمارکس دیے کہ جی دینے دیں ان کو درخواستیں۔ آج تفتیشی پرجرح کون کرے گا۔
وکیل نے کہا کہ جی میرے جونئیرمراتب علی کھرل موجود ہیں، اس کو سمجھا کر جاؤں گا۔
جج نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ پھریہ نہ کہنا کہ مجھے تاریخ چاہیے۔
سماعت میں مزید وکلا کےآنے تک وقفہ کیا گیا۔
مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دیگرملزمان عدالت میں پیش ہوئے جنھیں حاضری لگا کر واپس بخشی خانہ منتقل کر دیا گیا۔
ملزم عمر بلال کے وکیل شیرافضل عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے کہا کہ کتنا وقت لگ جائیگا۔
جج نے استفسار کیا کہ پندرہ منٹ بعد آجائیں آپ نے جرح کرنی ہے۔
متاثرہ لڑکی پر جرح
متاثرہ لڑکی سے سوال کیا گیا کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے؟
سندس نے جواب دیا بی ایس سی کمپیوٹرسائنس کیا ہے۔
وکیل نے پوچھا وقوعہ کے روز کسی نے آپ کے ساتھ زیادتی کی؟ جس پر لڑکی نے کہا کہ کسی نے میرے ساتھی جنسی زیادتی نہیں کی۔
سندس سے سوال کیا گیا کہ وقوعہ کے روز کیا آپ اس اپارٹمنٹ میں گئی تھیں ؟
لڑکی نے جواب دیا نہیں، میں اس دن اپنے گھر کہوٹہ میں تھی۔
شیرافضل نے پوچھا نے ویڈیو میں نظرآنے والی لڑکی آپ ہی ہیں؟ جس پر سندس نے عدالت کو بتایا کہ
میرے علم میں نہیں کہ ویڈیو میں میں ہوں یا نہیں۔
وکیل نے دوبارہ سوال کیا کیا آپ نہیں تھیں؟
لڑکی نے کہا جی نہیں! میں نہیں جانتی
وکیل نے سوال کیا کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی ہے؟ جس کا متاثرہ لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں! میں نے یہ ویڈیو نہیں دیکھی۔
وکیل نے عدالت سے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ ویڈیو ان کو دکھائی جائے جس پرجج عطا ربانی نے حکم دیا کہ تمام لوگ عدالت سے باہر چلے جائیں۔
کمرہ بند کرکے ویڈیو لڑکی کو دکھائی گئی۔
جرح دوبارہ شروع کرتے ہوئے وکیل شیرافضل مروت کہا کہ آپ نے میرے کلائنٹ سےایک کروڑ روپے کا تقاضا کیا تھا کہ میں ان کے حق میں بیان دوں گی۔
متاثرہ لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں میں نے کوئی تقاضا نہیں کیا۔
وکیل نے پوچھا کہ جب وقوعہ ہوا اس وقت آپ کیا کرتی تھیں؟
سندس نے جواب دیا کہ میں اس وقت کچھ نہیں کرتی تھی۔
وکیل نے کہا کہ ویڈیووائرل ہونےکے بعد وزیراعظم سمیت پورے ملک میں آپ کے حق میں ایک لہر اٹھی تھی، کیا آپ جانتی ہیں؟
لڑکی نے جواب دیا کہ جب میں اس ویڈیو میں ہوں ہی نہیں تو مجھے کیا پتہ۔
وکیل نے کہا کہ آپ اس کی کیا وضاحت دیتی ہیں کہ آپ کا بیان متعدد مرتبہ بیان دیا، جج کے سامنے بیان دیا، انگوٹھے لگائے، دستخط کیے، یہ سب آپ کے خلاف کیوں ہیں؟
لڑکی نے کہا میں نہیں جانتی۔
وکیل نے کہا پولیس نے بیان دیا، اے سی نے بیان دیا، یہ لڑکی پورے نظام انصاف کو جھٹلارہی ہے۔
164 کا بیان دیا گیا کیا یہ انگوٹھا اور دستخط آپ کے ہیں۔
لڑکی نے جواب دیا کہ پولیس نے سادہ کاغذوں پرانگوٹھے لگوائے۔
وکیل شیرافضل مروت نے کہا اس عدالت میں آپ نے کہا کہ یہ میرا انگوٹھا ہے ہی نہیں، اب آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ میرا ہی ہے۔
متاثرہ لڑکی نے جواب دیا کہ میں نے ایک سادہ کاغذ پردستخط اورانگوٹھا لگایا ہے۔ میں نے 164 کے بیان پردستخط اورانگوٹھا نہیں لگایا۔
وکیل نے سوال کیا آپ کا نکاح کب ہوا؟
لڑکی نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم۔ اسد کے ساتھ ایک ہی نکاح ہوا ہے
لڑکی سے سوال کیا گیا کہ کیا نکاح اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہوا تھا؟
لڑکی نے جواب دیا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد نکاح ہوا تھا۔ ویڈیووائرل ہونے سے قبل میرے گھر میں رشتہ آیا تھا اور ہمارا رشتہ ہوچکا تھا۔
وکیل نے پوچھا شادی سے پہلے آپ کی اسد رضا سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں؟ جس کا لڑکی نے جواب دیا کہ اسد رضا میرا منگیترتھا اورگھروالوں کی موجودگی میں میری ملاقات ہوتی رہی تھیں۔
وکیل نے سوال کیا کیا وقوعہ کے روز آپ رات گزارنے کیلئے اسد رضا کیساتھ اس اپارٹمنٹ میں آئی تھیں؟
سندس نے جواب دیا نہیں میں نہیں آئی تھی۔ اسد رضا کا خاندان ہمارارشتہ دارنہیں
وکیل نے سوال کیا کیا آپ جاب کی متلاشی تھیں؟
لڑکی نے کہا نہیں، میں متلاشی نہیں تھی
وکیل نے سوال کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی اس ویڈیوکی وجہ سے بہت سے لوگ جیلوں میں ہیں؟
لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں، میں نہیں جانتی۔
وکیل نے لڑکی سے پوچھا آپ سے جو164 کا بیان منسوب کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں کسی کو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، کیا آپ جانتی ہیں؟
لڑکی نے انکار کیا کہ میں نے کوئی بیان ہی نہیں دیا۔
سندس سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ سے منسوب ویڈیو کو ایف آئی اے اصلی قرار دیا تھا؟
لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں میں نہیں جانتی۔
وکیل نے پوچھا اس مقدمے کے حوالے سے آپ کی کبھی پولیس سے کوئی ملاقات ہوئی ہے؟
سندس نے بتایا کہ نہیں! اس مقدمے کے حوالے سے کبھی کسی پولیس اہلکار سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
وکیل نے پوچھا آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی کے ساتھ آپ کی ایک پریس کانفرنس ہوئی؟ جس پر لڑکی نے کہا میں کسی کو نہیں جانتی۔
وکیل نے سوال کیا کیا آپ نے پیسے لے کر اپنا بیان تبدیل کیا ہے؟ جس پرسندس نے جواب دیا کہ نہیں میں نے کوئی پیسے نہیں لیے۔
وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اورآپ کے خاوند نے کسی این جی او کیساتھ بیرون ملک جانے کیلئے کوئی دستاویزات جمع کرائی ہیں یا بات کی ہے؟
لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں بیرون ملک جانے کیلئے کسی این جی او کے پاس کوئی درخواست نہیں دی۔
وکیل نے پھر سوال کیا آپ سے منسوب 164 کے بیان پرآپ کا انگوٹھا اور دستخط کس نے لیے؟
لڑکی نے جواب دیا پولیس نے لیے، پولیس افسر کا نام نہیں جانتی۔
وکیل نے پوچھا کہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کبھی کسی پولیس والے سے ملی نہیں اورابھی آپ کہہ رہی ہیں کہ پولیس والے دستخط کروا کروائےگئے، کیا آپ پولیس والے سے ملی ہیں یا نہیں؟
سندس نے جواب دیا کہ جی ملی ہوں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ آپ نے آج عدالت میں اقرارکیا ہے کہ آپ نے عدالت کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ میری عدالت سے استدعا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کا نام ای سی ایل کیں ڈالا جائے۔
شیرافضل نے پھر سوال کیا ایف آئی اے رپورٹ کہتی ہے کہ ویڈیو میں تصویر اور آواز آپ کی ہے؟ جس کا سندس نے جواب دیا کہ ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ سات لوگ تو ایک شکل کے ہوتے ہیں، آپ کی آواز کس طرح مل گئی؟
لڑکی نے کہا مجھے نہیں علم کس طرح آوازمل گئی۔
وکیل نے سوال کیا کاغذوں پرانگوٹھا اوردستخط آپ سے پولیس نے کس جگہ پر لیے؟
لڑکی نے کہا مجھے نہیں یاد کہاں پردستخط اورانگوٹھا لیا گیا۔
وکیل نے سندس سے سوال کیا کہ اسد رضا سے آپ کو محبت تھی؟ اس پرعدالت نے یہ سوال ختم کروا دیا
وکیل نے جرح جاری رکھتے ہوئے سندس سے پوچھا کہ کیا آپ اسلام آباد آتی رہی ہیں؟
لڑکی نے بتایا کہ میں اپنے گھروالوں کے ساتھ اسلام آباد آتی رہی ہوں
وکیل نے پوچھا اب ہرکام میں آپ گھروالوں کو ساتھ لارہی ہیں، اس روز بھی گھروالوں کو ساتھ لے آتیں تو یہ مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ کیا آپ نے اپنی مرضی سے انگوٹھا اور دستخط دیے؟
سندس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتی کہ پولیس نے کیوں انگوٹھا اوردستخط لیے۔
وکیل نے سوال کیا جس اے سی نے 164 کا بیان ریکارڈ کیا وہ لڑکی تھی یا لڑکا؟
سندس نے جواب دیا میں نہیں جانتی وہ خاتون تھی یا مرد۔
وکیل نے پوچھا آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟
لڑکی نے جواب دیا بزنس کرتے ہیں۔
سندس سے سوال کیاگیا کہ جب وقوعہ ہوا اس وقت آپ کے والد کیا کرت تھے؟
لڑکی نے جواب دیا کہ ان کی ڈسپوزایبل چیزوں کی دوکان تھی۔
سندس نے وکیل سے پوچھا کہ یہ کس طرح کے سوال کیے جارہے ہیں۔
وکیل نے جرح جاری رکھی اورپوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ 13 دسمبر کو آپ کے تایا کے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 75 لاکھ روپے ٹرانسفر ہوئے ہیں؟
سندس نے جواب دیا میں نہیں جانتی۔ آج میں اوبرسے عدالت آئی ہوں۔
وکیل نے پوچھا آپ کے موبائل میں اوبرکی ایپ ہے؟
لڑکی نے کہا نہیں میرے خاوند کے موبائل میں ہے۔ میرے پاس میٹ ٹین لائٹ موبائل ہے۔ ٹوئیٹر، فیس بک وفیرہ میرے موبائل میں موجود ہیں، استعمال کرنے کا وقت نہیں ملتا۔
وکیل نے سندس سے پوچھا کہ کیا کسی نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ کا کوئی اتنا بڑا اسکینڈل بن گیا ہے؟
لڑکی نے جواب دیا کہ فیملی نے پوچھا تھا کہ آپ کی یہ ویڈیوز ہیں، میں نے کہا یہ میری نہیں ہیں۔
وکیل سندس سے پوچھا کیا آپ کو اسد کے ساتھ آئی لویو تھا یا نہیں؟ جس پرکمرہ عدالت میں قہقہہ لگا۔
متاثرہ لڑکے اسدرضا پر جرح
عدالت میں حلف لینے کے بعد متاثرہ لڑکے اسدرضا سے وکیل نے پوچھا کہ آپ کی اپنی اہلیہ کے ساتھ شادی محبت کی تھی ؟
اسد نے جواب دیا نہیں یہ ارینجڈ میرج تھی۔
وکیل نے اسد سے پوچھا آپ کی اپنی اہلیہ سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟
اسدرضا نے جواب دیا مجھے یاد نہیں۔
وکیل نے سوال کیا کیا یہ آپ کی پہلی محبت تھی یا اس سے پہلے بھی عشق تھا؟ آپ نے 164 کے بیان پرجو دستخط اور انگوٹھا لگایا، یہ کہاں پرکیےتھے؟
متاثرہ لڑکے نے جواب دیا کہ ایک دفعہ تھانے میں کیے تھے، دوسری دفعہ کا یاد نہیں، یہ سادہ کاغذ پر لیے گئے تھے۔ میں اس پولیس افسر کا نام بھی نہیں جانتا جس نے انگوٹھا اور دستخط لیے۔
وکیل نے سوال کیا ویڈیو میں آپ کو تھپڑ پڑے سب سے زیادہ تھپڑ کونسی جگہ پر پڑے؟
اسد رضا نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا۔
وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ وٹنس کو مجبور کیا جائے کہ وہ جواب دے۔
وکیل نے پوچھا پولیس نے آپ سے وہ کپڑے اور جیکٹ مانگے تھے جو آپ نے ویڈیو میں پہنے تھے۔
اسد نے جواب دیا نہیں پولیس نے نہیں مانگے۔ وقوعہ کے روز جس دن یہ ویڈیو بنی میں اس دن اسلام آباد میں اپنےکام پرتھا۔ میں فری لانسررئیل ایجنٹ تھا۔ میری زیادہ توجہ ایف الیون میں تھی۔
اسدرضا سے سوال کیا گیا کہ ویڈیومیں نظر آرہا ہے کہ خاتون کے ساتھ تشدد ہورہا ہے، آپ نے اسی روزپولیس کو کیوں نہیں بتایا؟
جج نے بھی سوال کیا کہ بتاؤ نا جوان۔
متاثرہ لڑکے نے کہا کہ ہمارے ساتھ کوئی اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا
وکیل نے سوال کیا بیان بدلنے کے آپ نے کتنے پیسے لیے ہیں؟
اسد نے بتایا کہ کوئی پیسے نہیں لیے۔
وکیل نے سوال کیا کیا آپ کو عثمان مرزا اور دیگر ملزمان پر کوئی ترس آیا ہے؟
متاثرہ لڑکے نے نفی کی کہ میں ان لوگوں کو نہیں جانتا
وکیل نے سوال کیا وقوعے کے وقت آپ اس اپارٹمنٹ میں کس لیے گئے؟
اسد نے کہا وقوعہ کے دن ہم اس اپارٹمنٹ میں گئے ہی نہیں۔ جب وقوعہ ہوا ان دنوں ہم چکلالہ اسکیم تھری میں رہتے تھے، جس کو میرے گھروالوں نے کرایے پرلے رکھا تھا جس کا کرایہ 17500 روپے تھا۔
متاثرہ لڑکے نے بتایا کہ میرے والد پہلے کمرشل مارکیٹ میں ایک کپڑے کی دوکان پر مینیجر تھے۔
اسد سے سوال کیا گیا کہ وقوعے کے دن کیا آپ کے ساتھ بھی کوئی زیادتی ہوئی؟کیا آپ کے ساتھ کسی نے جنسی زیادتی کی کوشش کی؟
اسد نے کہا میں نہیں جانتا۔
وکیل نے پوچھا آپ نے کس کے کہنے پرعدالت میں اشٹام دیے؟ کس کے کہنے پرخریدے اور لکھوائے؟
لڑکے نے جواب دیا کہ ملزمان نے ہمیں یہ اشٹام لکھوانے کا نہیں کہا۔ ہم خود گئے تھے۔
وکیل نے پوچھا یہ اشٹام دے کر آپ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟
عدالت نے وکیل کو روکا آپ کیا تشریح کرانا چاہتے ہیں، تشریح تو ہم نے کرنی ہے۔
متاثرہ لڑکے نے جواب دیا کہ میں نے اس کیس میں تفتیشی افسر کو کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔ اس کیس کے معاملے میں تھانہ گولڑہ میں تین چاردفعہ گیا تھا
وکیل نے پوچھا کیا پولیس والوں نے آپ کو ویڈیو دکھائی تھی؟
متاثرہ لڑکے نے کہا کہ نہیں مجھے پولیس نے ویڈیو نہیں دکھائی، میں نے یہ ویڈیوانٹرنیٹ پردیکھی۔ میں کسی لیڈی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس نہیں گیا۔ پہلی دفعہ میں اکیلا تھانے گیا، اس کے دو تین دفعہ میری اہلیہ میرے ساتھ تھانے گئی
اسد رضا نے بتایا کہ میں ملک سے باہرجانے کا پلان پانچ سال سے کررہا تھا، کس ملک جانا ہے اس کا ابھی انتخاب نہیں کیا۔ رشتہ داروں نے ویڈیو کے بارے میں مجھ سے پوچھ تو میں نے کہہ دیا یہ میری نہیں۔
وکیل نے پوچھا ویڈیو میں آپ کی طرح کا شخص جو ہے وہ آپ ہیں یا نہیں؟
اسدرضا نے کہا ویڈیو میں جو شخص نظرآرہا ہے وہ میں نہیں ہوں۔
سماعت کے دوران متاثرہ لڑکے نے پانی مانگا۔
وکیل نے سوالات جاری رکھتے ہوئے پوچھا ویڈیو میں نظر آنے والا شخص کون ہے جس کی شکل اورآواز آپ سے ملتی ہے؟
سوال کے جواب میں متاثرہ لڑکا خاموش رہا۔
جج عطاربانی نے بھی لڑکے سے کہا کہ اسدرضا بتاؤ وہ کون ہے جو ویڈیو میں ہے جس کی شکل اور آواز آپ سے ملتی ہے۔
آپ نے پولیس والوں کو کیوں نہیں کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص میں نہیں ہوں؟
اسدرضا نے جواب دیا کہ ہم نے تو شروع سے ہی کہا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم سے پوچھ کے کیس تھوڑی ہی بنا تھا۔
میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا کہ کیوں میں نے ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے وقت یہ نہیں کہا کہ ویڈیو میں مَیں نہیں ہوں۔ میں اس سوال کا جواب بھی نہیں دینا چاہتا کہ اتنی دیرمیں کیوں خاموش رہا۔
جرح کے بعد جج عطاربانی نے ای الیون لڑکا لڑکی ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی۔
آئندہ سماعت پرمقدمے کے تفتیشی افسر پر جرح ہوگی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News