
مسلم ممالک اور امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شہری تنصیبات پر حوثی باغیوں کے دہشت گرد حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے اور العربیہ نیٹ کے مطابق خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے سیکرٹری جنرل نایف الحجرف نے امارات میں شہریوں اور شہری تنصیبات پر حوثیوں کے میزائل حملوں پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
نایف الحجرف نے کہا کہ حوثی مسلسل حملے کرکے بین الاقوامی برادری کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں، عالمی قوانین و روایات کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یمن میں قیام امن کی تمام کوششوں کو تہہ و بالا کر رہے ہیں۔
انہوں نےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ شہری تنصیبات اور اہم اداروں پر حملے رکوانے کے لیے حوثیوں کے خلاف فیصلہ کن مؤقف اختیار کیا جائے۔مصری دفتر خارجہ نے حوثیوں کے حملوں کو بزدلانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ حملے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں اسے امارات اورسعودی عرب کے امن و استحکام، ان کے شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کی سلامتی پر حملہ قرار دیا گیا۔
ترک دفتر خارجہ نے بیان میں حوثیوں سے حملے فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
کویتی دفتر خارجہ نے کہا کہ حوثیوں کے یہ حملے عالمی برادری کے لیے کھلا چیلنج ہیں۔ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جارحانہ سرگرمیوں کو روکنے اورعالمی امن و سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔
بحرینی دفتر خارجہ نے مذمتی بیان میں کہا کہ عالمی برادری حوثیوں کو لگام ڈالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
اردنی دفتر خارجہ کے ترجمان ہیثم ابو الفول نے کہا کہ اردن دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے، یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔
عرب وزرائے داخلہ کونسل نے بیان میں کہا کہ حوثی عرب دنیا کے امن و استحکام کو تہ و بالا کرنے کے درپے نظر آرہے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم نے مملکت اور امارات کی شہری تنصیبات اور اداروں پر حوثیوں کے بیلسٹک میزائل اور ڈرونز حملوں کو دہشت گردی قرار دیا۔ سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے کہا کہ حوثیوں کی یہ سرگرمیاں مجرمانہ اور بین الاقوامی قوانین و روایات کی خلاف ورزی ہیں۔
ریاض میں امریکی سفارتی مشن نے جازان پر حوثیوں کے حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکی سفارتی مشن نے بیان میں حوثیوں سے کہا کہ شہریوں پر حملے فوراً بند کریں اور یمنی بحران کے سیاسی حل کے لیے اقوام متحدہ کے سفارتی مشن میں شامل ہوں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News