چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیرسماعت کیسزکی فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جبری گمشد گیاں آئین سے انحراف کے مترادف ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ صحافی و بلاگرمدثرنارو کی گمشدگی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مدثرناروکی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے۔ اکثرلوگوں نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا۔
خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔ کچھ لوگ کے پی کے حراستی مراکز میں ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پرکیا کہیں گے؟
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جبری گمشدگیوں میں جولوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟
خالد جاوید خان نے کہا کہ ایسا بھی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پر لٹکائے جاتے تھے۔ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔
عدالت نے کہا کہ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جواب دیا کہ حراستی مراکزسے متعلق ایک قانون بنا تھا اوروہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت رہا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے کہا کہ ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے۔
والد مسنگ پرسنزنے عدالت سے کہا کہ میرے دونوں بیٹے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے، جنہیں 2016 میں اٹھایا گیا۔ ایک ایل ایل بی اور دوسرا ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہا تھا۔
والد مسنگ پرسنزنے بتایا کہ واقعہ کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پردرج ہوئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔
والد مسنگ پرسنز نے کہا کہ میں نےایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے۔ دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت سے کہا کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ تفتیش میں کیا ہوا؟ سیکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا۔ ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک بیچارے نے کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا۔
خالد جاوید خان نے عدالت سے کہا کہ یہ تو قانون نافذ کرنے والے ادارے بتا سکتے ہیں۔
کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے مسنگ پرسن کیس میں ملوث ایک انٹیلی جنس افسر کی تصویردکھائی تولاپتہ شہری واپس آ گیا۔ شہری نے واپس آ کر بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھررہی ہیں، کون یہ کررہا ہے؟ کومت اور وفاقی کابینہ جواب دہ ہے۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت سے کہا کہ آئی جی اسلام آباد سے اس متعلق رپورٹ منگوا لیں۔
عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں۔ کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس کورٹ کو حل بتائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگروفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اورانٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اوراس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ یہ ایسی بات ہے کہ ریاست کو ہل جانا چاہئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات سے نان اسٹیٹ ایکٹرزکی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوروہ بھی ایکٹو ہوجاتے ہیں۔ وہ بچہ یقینا ناردرن ایریا تو نہیں گیا تھا، کم از کم معاملہ انوسٹی گیٹ ہو جاتا تو لوگوں کو اعتماد ہوتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف، یوسف رضا گیلانی اورعمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کوغائب کیا جائے۔ اگرایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو یہ اچھا میسج جائے گا۔ جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کرلیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اگرکسی کی نشاندہی ہوجائے اورچیف ایگزیکٹو نہ ایکشن لیں تو وہ جوابدہ ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی جس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ وہ تومکا بھی دکھا رہے تھے اوراب مفرور ہیں۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ میرے لیے کہنا آسان ہے کہ جس دورمیں گمشدگیاں ہیں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ میں ایسا نہیں کہوں گا۔
وکیل مسنگ پرسن نے کہا کہ حراستی مرکزکا دورہ کرایا جائے تو کافی لاپتہ شہری بازیاب ہوسکتے ہیں جس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں، حراستی مرکز میں موجود تمام افراد کی شناخت اورلسٹ موجود ہے۔ حراستی مرکز میں موجود لوگوں کی ان کی فیملیز سے ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہئے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہوتوتفتیش کون کرے گا؟ یہ عدالت، وکیل صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کرسکتا۔
عدالت نے کہا کہ آپ کو وفاقی حکومت کی جانب سے واضح پیغام دینے کے لیے مزید وقت دیں؟
عدالت نے کیسز کی مؤثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
