
اب جو خبر ہم آپ کے لیے پیش کر رہے ہیں، اس کی تفصیلات جان کر جوش کے مارے آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
برطانیہ میں مبینہ طور پر جنسی قوت میں اضافے کی دوا ویاگرا سے کووڈ 19 کے علاج کے کامیاب تجربہ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
کووڈ 19 سے شدید متاثرہ ایک برطانوی نرس نے اپنی جان بچنے کا سہرا ویاگرا کے سر دیا ہے۔
ویاگرا عام طور پر عضو تناسل کی مخصوص خامیاں دور کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
مونیکا المیڈا نامی ایک 37 سالہ نرس اکتوبر میں شدید ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس 2 (SARS-CoV-2) کا شکار ہوئیں۔
مونیکا کی حالت اس حد تک بگڑ گئی کہ انہیں انتہائی نگہداشت میں داخل کیا گیا اور 16 نومبر کو طبی طور پر کوما میں رکھا گیا۔ جب حالات بگڑتے نظر آئے تو ان کے ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر ویاگرا کی چھوٹی نیلی گولی آزمائی۔
تجربہ کامیاب رہا اور مونیکا 14 دسمبر کو کوما سے نکلیں اور کرسمس کے موقع پر گھر واپس آئیں۔
نرس مونیکا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ “یہ یقینی طور پر ویاگرا تھی جس نے مجھے بچایا۔ 48 گھنٹوں کے اندر اس نے میری ہوا کی نالیاں کھول دیں اور میرے پھیپھڑوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ، “اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ دوا کیسے کام کرتی ہے، تو یہ آپ کے خون کی نالیوں کو پھیلاتی ہے۔ مجھے دمہ ہے اور میرے پھیپھڑوں کو سانس لینے کے لیے تھوڑی مدد کی ضرورت ہے۔”
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے معروف ہیلتھ اسپیشلسٹ مارک سیگل نے بتایا کہ ویاگرا کس طرح “پھیپھڑوں میں خون اور آکسیجن کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔”
چلی کے ہسپتال نیول المیرانٹے نیف اور یونیورسیڈیڈ اینڈریس بیلو میں اس حوالے سے ایک تحقیقاتی تجربہ بھی کیا گیا تھا۔ جس میں 40 ایسے مریض شامل کئے گئے جن میں شدید ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس 2 (SARS-CoV-2) انفیکشن کی تشخیص ہوئی تھی اور ان کے پھیپھڑوں میں خون کے بہاؤ میں تسلسل نہیں تھا۔
ان مطالعاتی شرکاء میں سے نصف (20 مریضوں) نے سات دن تک دن میں تین بار منہ سے 25 ملی گرام سیلڈینافل (ویاگرا) لی۔ جبکہ دیگر نصف کو اسی طرح کے پلیسبو کیپسول دئیے گئے۔
سیلڈینافیل لینے والے پریضوں میں تحقیقی ٹیم کو پھیپھڑوں میں خون کے بہاؤ اور آکسیجن کے نمونوں میں نمایاں فرق نہیں ملا۔ تاہم، پلیسبو گروپ کے چار مریضوں کو آخر کار میکینیکل وینٹیلیشن کی ضرورت پڑی۔
سیلڈینافل گروپ میں شامل افراد کے ہسپتال میں قیام کی مدت پلیسبو گروپ کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھی۔
خیال رہے کہ 20 افراد کوئی بڑی تعداد نہیں ہے، اس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
یاد رکھیں، CoVID-19 ویکسین کے ٹرائلز میں دسیوں ہزار مریض شامل تھے۔ مزید یہ کہ یہ صرف ایک مطالعہ تھا۔
صرف ایک مطالعہ کی بنیاد پر طبی مشورہ دینا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہوگا۔ فی الحال نتائج کی تصدیق کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News