
بھارت کے شمال میں واقع اترپردیش میں 403 حلقوں کے لیے انتخابات 10 فروری سے سات مارچ کے درمیان سات مراحل میں ہو رہے ہیں، اس ریاست کی موجودہ آبادی 22 سے 23 کروڑ کے درمیان ہے جن میں تقریباً 15 کروڑ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش میں 403 اسمبلی حلقوں کے لیے انتخابات 10 فروری سے سات مارچ کے درمیان سات مراحل میں منعقد ہو رہے ہیں، جن میں تقریباً 15 کروڑ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں 2018 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد محض 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار کے آس پاس تھی، جو اتر پردیش کے رجسٹرڈ ووٹروں سے نسبتاً کم ہے۔
بھارت میں اتر پردیش کے ساتھ پنجاب، اترکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔
عام انتخابات کے بعد اتر پردیش کے انتخابات سب سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کے ووٹروں کا عام انتخابات میں ملک کی مرکزی حکومت منتخب کرنے میں بڑا کردار ادا کرنا ہے۔
مذکورہ بالا انتخابات کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کیوں یہ ریاست سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے نیز اس کی سب سے بڑی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اسے اپنا گڑھ سمجھتی ہے۔
اتر پردیش میں کئی سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں لیکن درحقیقت مقابلہ بی جے پی، اکھلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے درمیان ہے۔
بھارت کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کانگریس ریاست یو پی میں پچھلے انتخابات میں محض چھ فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔
دو ہزار سترہ میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے اس ریاست میں 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ 403 میں سے 312 جبکہ دو ہزار انیس میں عام انتخابات میں جماعت 80 میں سے 62 نشستیں جیت کر تاریخ رقم کی تھی۔
ریاست کی لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 80 ہے۔ 543 اراکین والی لوک سبھا میں ایک ہی ریاست سے 80 اراکین آتے ہوں تو وہ ریاست انتخابی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر اتر پردیش کے عوام پھر سے فرقہ پرستی کی سیاست کی نظر ہوکر ووٹ دیتے ہیں تو بی جے پی ریاست میں اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
دوسری جانب ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں تو ممکنہ طور پر بی جے پی کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں جیسے راجپوتوں اور برہمنوں، سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے اتحاد کو جاٹوں (جاٹ کسانوں)، یادووں اور مسلمانوں جبکہ بہوجن سماج پارٹی کو نچلی ذات کے ہندو سمجھے جانے والے دلتوں کے ووٹ مل سکتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر اتر پردیش کے لوگوں نے بی جے پی کی مذہبی منافرت پر مبنی انتخابی مہم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھ کر ووٹ دیے تو بی جے پی کی ہار یقینی ہے۔
حیدرآباد دکن کی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ایک بار پھر اتر پردیش میں انتخابی میدان میں اتر گئی ہے۔
اس نے 2017 کے انتخابات میں 38 اسمبلی حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جن میں سے ایک کو بھی فتح نصیب نہیں ہو پائی تھی۔
اس بار جماعت نے اپنے 100 امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس پر وہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ انتخابات لڑ کر مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کی مدد کرے گی۔
یاد رہے، رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس بار یوپی انتخابات میں موضوعات بالکل مختلف ہیں۔ مثلا بی جے پی کے کٹر حامی سمجھے جانے والے ‘زی نیوز ؛کے ایک سروے کے مطابق 73 فی صد ووٹرز کا خیال ہے کہ انتخابات میں بے روزگاری سب سے اہم ایشو ہے۔
65 فی صد کے مطابق مہنگائی اہم ایشو ہے جب کہ 54 فی صد ترقی کو انتخابی ایشو سمجھتے ہیں۔ 39 فی صد کے لیے آوارہ جانوروں کا ایشو اور 19 فی صد کے مطابق کسانوں کا مسئلہ اہم انتخابی ایجنڈا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس بار طویل عرصے کے بعد ریاست میں دو جماعتی مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو کی جماعت سماج وادی پارٹی اور جینت چودھری کی جماعت راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کا انتخابی اتحاد حکمران جماعت بی جے پی کا اصل مد مقابل ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News