
اسلام آباد ہائی کورٹ نے محسن بیگ کی گرفتاری سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا اور ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی محسن بیگ کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں ڈائریکٹر سائبر جرائم، ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے کیا ایس او پی بنائی تھی؟ ایف آئی اے کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے، پبلک آفس ہولڈر کی ریپوٹیشن کی حفاظت کرنا نہیں ہے۔
عدالت نے کیس میں ریمارکس دیے کہ آپ کو شکایت کہاں سے ملی؟ ایف آئی اے نے بتایا کہ لاہور میں شکایت درج کی گئی۔
اظہارِ برہمی کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ لاہور میں شکایت کیوں درج کی گئی؟ ملزم کہاں تھا؟ آپ نے کیا انکوائری کی؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر جرائم نے عدالت سے کہا کہ میرے معزز جج صاحب مجھے بولنے دیں۔
ایف آئی اے نے عدالت سے کہا کہ وزیر صاحب نے شکایت ہی لاہور میں درج کروائی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے انکوائری کی؟ شو ٹیلی ویژن پر ہوا تو کیا وہ آپ کے قوانین کے مطابق ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے سب ضابطے چھوڑ دیے کیوں کہ شکایت گزار وزیر تھا؟ کیا آپ قانون سے بالاترہیں؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے عدالت سے کہا کہ اس کیس میں چارمہمان تھے جس پرعدالت نے سوال کیا کہ پھر آپ نے دیگر تین افراد کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ باقی تین مہمانوں نے ایسی بات نہیں کی تھی اگر انہوں نے ایسی کوئی بات کی تھی تو گرفتار ہوں گے۔
عدالت نے سوال کیا کہ اس گفتگو میں توہین آمیزکیا تھا؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے بتایا کہ ریحام خان کی کتاب کا حوالہ توہین آمیز تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی خدمت کے لیے ہے یا پھرعوام کے لیے؟ ہر بار ایف آئی اے کو سمجھایا ہے کہ ایسا نہ کریں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا
’نہ آپ میرے بچے ہیں نہ میں آپ کا باپ ہوں‘
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو مخاطب کیا اور کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں۔ آپ اس عدالت کے ساتھ فراڈ کررہے ہیں۔
ایف آئی کے ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے اہلکاروں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ ہم بھی آپ کے بچے ہیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نہ آپ میرے بچے ہیں نہ میں آپ کا باپ ہوں۔ ہم پبلک کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی خدمت کے لیے ہے یا پھر عوام کے لیے؟ ہربار ایف آئی اے کو سمجھایا ہے کہ ایسا نہ کریں۔ آپ پڑھ کر بتائیں کہ کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟
ڈائریکٹرسائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا۔
ڈائریکٹر سائبرکرائم ونگ نے کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ توہین آمیزہے جس پرعدالت میں قہقہے لگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟
ڈائریکٹرسائبرکرائم ونگ ایف آئی اے نے عدالت سے کہا کہ نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کے پاس کتنی شکایات زیرالتوا ہیں؟ جس پر ڈائریکٹرسائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے بتایا کہ پورے پاکستان میں 14 ہزار شکایات زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے تمام شکایات پر گرفتاریاں کیں؟ پیکا ایکٹ کی سیکشن 21 ڈی پڑھیں، آپ خود کو مزید شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ وہ بتا دیں، آپ اس سیکشن کا کہہ کر شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مذید کہا کہ آپ شرمندہ ہونے کے بجائے مزید دلائل دے رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے عدالت سے کہا کہ میں نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ عدالت اٹارنی جنرل پاکستان کو طلب کرے گی تاکہ آپ کا وہ دفاع کریں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے عدالت سے کہا کہ وہ میرا دفاع کیوں کریں گے۔ سارے اختیارات میں تو استعمال نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھرآپ لکھ کر دیں آپ نے کس کے کہنے پر کارروائی کی۔ آپ پھر اپنی ایف آئی آر کا دفاع کرلیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے عدالت سے کہا کہ پیکا ایکٹ پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے میرا کیا قصورہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ کتاب میں کیا لکھا ہے وہ سب جانتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب کیا جانتے ہیں؟ آپ جانتے ہوں گے۔ یہ عدالت بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ آپ محتاط رہیں مگر کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہاررائے کی آزادی نہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی، یہ پبلک آفس ہولڈر کی شکایت ہے، آپ کیا میسج دے رہے ہیں؟
کیس میں ریمارکس دیے ہوئے عدالت نے کہا کہ عدالت میں جمع کرائے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ ایک دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کرے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ میرے خیال میں اس کیس میں سیکشن 21 ڈی نہیں بنتا جس پر عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افریقا کے ممالک نے بھی ہتک عزت کے معاملات کو فوجداری قوانین سے نکالا ہے۔ صحافیوں کے لیےغیرمحفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے۔ آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں۔ کسی کی ساکھ اختیارات کےغلط استعمال سے نہیں بچتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈرز پر لوگوں کا اعتماد ہی ان کی اصل ساکھ ہے۔ ملزم نے چھاپے کے وقت جو کیا وہ الگ معاملہ ہے جو مجازعدالت دیکھے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے ایسا کیس بنایا کہ پورا قانون ہی کالعدم قرارہوجائے۔ کھوسہ صاحب، آپ کی مقدمہ اخراج کی درخواست قابل سماعت نہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ ایک جتھا آ کرگھرمیں گھسا، ہم نے کال کرکے پولیس کو بلایا۔ ایس ایس پی کو ایک فون آیا تو سب کو تھانے لے آئے۔ پولیس اسٹیشن میں محسن بیگ کو مارا پیٹا گیا۔
وکیل محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی بیلف گیا تو اسے بھی بڑی مشکل سے پولیس اسٹیشن میں داخلے کی اجازت ملی۔ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں سماعت چلی اورانہوں نے اس متعلق فیصلہ دیا۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ اس دوران محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ لے لیا۔ میں صرف بدنیتی کے نکتے پر دلائل دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ ہوا عدالت اس پر کوئی آبزرویشن نہیں دے گی، ٹرائل کورٹ کو بتائیں جس پر ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ مراد سعید لاہور گیا بھی نہیں، پھر پتہ نہیں لاہور میں کیسے شکائت درج ہو گئی؟
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی وزیرکی شکایت پر یہ کارروائی ہوئی تو وزیراعظم نے ایک میٹنگ بلائی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے خود کہا کہ جج کے خلاف ریفرنس لا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی جج کو دھمکایا نہیں جا سکتا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں اس بات کا جواب دوں جس پر وکیل محسن بیگ نے کہا کہ آپ اتنی جلدی گھبرائیں نہیں۔ انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے کہ تھانے میں تشدد کا انڈی پینڈنٹ گواہ نہیں۔
سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ میں تھانے میں تشدد پر گواہ کہاں سے دے سکتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے؟ رپورٹ میں یہ لکھا ہے؟ جس پروکیل محسن بیگ نے عدالت سے کہا کہ جی۔ میں رپورٹ پڑھ دیتا ہوں، اس میں ایسا ہی لکھا ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے آئی جی اسلام آباد اورمجسٹریٹ کی انکوائری رپورٹ پڑھ کرسنائی۔
سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ کچھ زخم آئے ہیں۔ جس چھاپے کو ایڈیشنل سیشن جج نےغیرقانونی قراردیا، اس وقت تک کوئی مزید ایف آئی آر درج نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر درج ہوئی جس پر ملزم کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ غیر قانونی چھاپہ نہ مارا جاتا تو اس کے بعد والا واقعہ ہونا ہی نہیں تھا۔ اگر میرے گھر میں کوئی سادہ کپڑوں میں گھس آتا ہے تو کیا شہری کو اپنے دفاع کا حق نہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی میرے گھرآ کرمجھے تعارف کرائے کہ وہ ایف آئی اے سے ہے، ساتھ چلیں، تو میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News