
آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس سے ویکسین کو ریفریجریٹر کے بغیر کئی مہینوں تک گرم ماحول میں بھی محفوظ رکھا جا سکے گا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے 50 فیصد ویکسینز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران (ایکسپائر) خراب ہو جاتی ہیں۔
تاہم اب آسٹریلوی سائنسدانوں نے ویکسین کو ریفریجریٹر کے بغیر گرم ماحول میں کئی مہینوں تک محفوظ رکھنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جو بہت کم خرچ بھی ہے۔
اس تحیقق کے ابتدائی تجربات میں ماہرین نے دو الگ الگ ویکسینز کو کمرے کے عام درجہ حرارت اور 37 ڈگری سینٹی گریڈ جتنے گرم ماحول میں 12 ہفتوں (تقریباً تین مہینوں) تک محفوظ رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس طریقے کا قابلِ عمل ہونا ثابت کیا۔
یہ طریقہ آسٹریلوی حکومت کے ماتحت مرکزی سائنسی و صنعتی تحقیق کے ادارے ’سی ایس آئی آر او‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایجاد کیا ہے جبکہ یہ تحقیق ریسرچ جرنل ’’ایکٹا بایومٹیریئلیا‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
اس نئے طریقے میں ’میٹل آکسائیڈ فریم ورک‘ (MOF) کہلانے والے مادّے استعمال کیے گئے ہیں جو مسام دار، قلم دار (کرسٹلائن) اور حل پذیر (dissolvable) ہوتے ہیں۔
ویکسین کے ساتھ شامل ہوجانے کے بعد، یہ مادّے کسی حفاظتی حصار کا کام کرتے ہوئے ویکسین کے سالمات (مالیکیولز) کو اپنے اندر بند کرکے محفوظ کرلیتے ہیں۔
ایم او ایف مادّے ویکسین کے ساتھ کوئی کیمیائی عمل نہیں کرتے لیکن اسے ماحول کی سختی، بالخصوص گرمی کے اثرات سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور طرح لمبے عرصے تک ویکسین کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طریقے کے سے ویکسین کو محفوظ کرنے کے بعد جب بھی کسی کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہوگی تو ایک خاص لیکن بے ضرر مائع اس محلول میں شامل کردیا جائے گا جو ایم او ایف کو تحلیل کرکے ویکسین کو آزاد کردے گا، جس کے بعد وہ کسی بھی دوسری عام ویکسین کی طرح لگائی جا سکے گی۔
اس نئے طریقے کے ابتدائی تجربات میں یہ طریقہ جن دو ویکسینز پر آزمایا گیا ان میں سے ایک انسانی زکام کی، جبکہ دوسری مرغیوں کو ہلاکت خیز وائرس ’این ڈی وی‘ سے بچانے والی ویکسین شامل تھی۔
اس تجربے کے دوران ویکسینز کے ساتھ ایم او ایف مادّے شامل کرنے کے بعد وقفے وقفے سے تحقیق کار ویکسین کا جائزہ لیتے رہے جس سے معلوم ہوا کہ ویکسینز خاصے گرم ماحول میں (37 ڈگری سینٹی گریڈ پر) بھی کم از کم 12 ہفتوں تک بالکل صحیح اور قابلِ استعمال حالت میں رہی۔
تاہم اس تجربے کی کامیابی کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچی کے اس نئے طریقے کے استعمال سے ویکسین کو کئی ماہ تک بغیر ریفریجریٹر کے رکھا جا سکے گا اور کروڑوں کی ویکسینز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران خراب ہونے سے بچائی جا سکیں گی۔
یاد رہے کہ آج کل کسی بھی عام ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری سینٹی پر محفوظ رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ چند گھنٹوں یا چند دن میں ہی خراب (ایکسپائر) ہوجاتی ہیں۔
تاہم جدید ’ایم آر این اے ویکسینز‘ کا معاملہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ انہیں عام ڈیپ فریزر کے مقابلے میں بھی شدید سرد ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی ویکسینز کو بحفاظت رکھنے کے لئے اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر روحانی اور ان کے ساتھیوں کو امید ہے کہ ان کی یہ ایجاد خاص طور پر غریب اور کم وسائل والے ملکوں کے بہت کارآمد ثابت ہوگی جہاں ویکسین محفوظ رکھنے والے ریفریجریٹرز اور ڈِیپ فریزر جیسی چیزیں بہت کم ہیں اور وہ کم خرچ میں مختلف ویکسینز کو باآسانی محفوظ رکھ سکیں گے۔
واضح رہے کہ دور دراز مقامات پر ویکسین کی منتقلی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صرف مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں 50 فیصد سے زیادہ ویکسینز ضائع ہوجاتی ہیں۔
تاہم اگر یہ جدید طریقہ اگلے مراحل میں بھی قابلِ عمل اور محفوظ ثابت ہوا تو امید کی جا سکتی ہے کہ جلد ہی مہنگی ترین ویکسینز نامناسب انتظامات کی وجہ سے ضائع ہونے سے جچ جائیں گی جبکہ اس طریقے سے ویکسین کی محفوظ ذخیرہ کاری (سیف اسٹوریج) کے اخراجات بھی نمایاں طور پر کم ہوسکیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News