Advertisement
Advertisement
Advertisement

پوری دنیا میں طے ہےکہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس

Now Reading:

پوری دنیا میں طے ہےکہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس
اطہر من اللہ

چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ پوری دنیا میں طے ہے کہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔جوڈیشری کی ساکھ اس کے فیصلوں سے محفوظ رہے گی۔ 

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور پی ایف یوجے کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دنیا ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے۔ ایکٹ پارلیمنٹ سے منظورہوا تھا تو عدالت نے اس پر کچھ نہیں کیا۔

عدالت نے کہا کہ برسراقتدار پارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے اپنے پڑوسی کے خلاف ماحولیاتی مسئلے پر ایف آئی اے میں شکایت کی۔ ایف آئی اے نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اُن کو ہراساں کیا۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے ایف آئی اے کو بلا کر سمجھایا کہ بنیادی حقوق اور آزادی اظہارکا خیال رکھا جائے۔ عدالت نے کہا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ریاست آواز دبانے کیلئے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے صرف حکومت کے خلاف تنقید کرنے والوں کو اٹھاتی رہی۔ ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ جمہوری ملک میں ہو رہا ہے۔ ایک سیاسی ورکر نے ایک پبلک آفس ہولڈر کے خلاف تقریرکی اورچھ ماہ جیل میں رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون پبلک آفس ہولڈرزکے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے۔ اگر حکومت کو پرائیویٹ لوگوں کی ہتک کا اتنا خیال ہے تو پبلک آفس ہولڈرز کو اس سے نکال دے۔

عدالت نے کہا کہ اداروں کے بنیادی حقوق یا ساکھ نہیں ہوتی، وہ ہتک عزت میں کیسے آ سکتے ہیں؟ یہ عدالت کیوں نہ ہتک عزت کے قانون کو کالعدم قراردے دے۔ کیوں نہ ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہتک عزت کے سول کیسز میں قانون کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ سول کورٹ کو پابند بنا دیتے ہیں کہ تین ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا۔

عدالت نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز اور پولیٹیکل ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں جو کچھ سوشل میڈیا پرہو رہا ہے۔ جب پولیٹیکل پارٹیز اپنی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں گی تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا ہے وہ اس میں کیسے آ سکتے ہیں؟

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی۔ ہتک عزت کا مقدمہ بہترکرلیں، اس کا فیصلہ نوے دن میں ہو۔ عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قراردیا جائے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیرآئینی قراردے۔ میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں۔ قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈزہونے چاہئیں۔ میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے آرڈیننس کے حوالے تمام ترحقائق کا پتہ ہے۔ میری رائے کے مطابق یہ غیرقانونی قانون نہیں مگر اس کوغلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قانون میں سقم ہوسکتے ہیں مگر تحفظ ضروری ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو ایس او پیز یہاں جمع کرائے وہ کافی نہیں ہے۔ سیکشن 20 کے تحت سیاسی بیان بازی پر پابندی نہیں ہوگی۔ اس قانون کو ڈی کریمنلائز کرنے کے سوال کے ساتھ متفق نہیں ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں موجود کوئی بھی درخواست گزاربتائے کہ سیکشن 20 سیاسی بیانات پر قدغن ہے۔ باہرکے دنیا میں اوریہاں کے کلچر میں بھی فرق ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے۔ کیا یہ آزادی اظہاررائے ہے؟ جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا ہے۔

Advertisement

ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے۔ بیریسٹرجہانگیرجدون نے کہا کہ ن لیگ کی جانب سے بھی درخواست دائرکی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے، آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ اس کو مسترد کرسکتے ہیں۔ آپ پارلیمنٹ جا کر اپنا کردارادا کریں۔ عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پرکارروائی نہیں کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں۔ عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا۔ آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکائت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں بھی کہتا ہوں کہ سیاسی تقاریرپراس طرح کی کارروائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ پراعتماد کرنا چاہئیے۔ پارلیمنٹ کا احترام اس عدالت کی ذمہ داری ہے۔ افسوسناک ہے کہ 35 سال یہ ملک آرڈیننسز پر چلتا رہا۔ عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین ہے۔

Advertisement

عدالت نے کہا کہ آرڈیننس کہتا ہے کہ ایف آئی اے گرفتار کرے اور ٹرائل تک بندہ گرفتاررہے۔ حکومت نے اس قانون کو نیب سے بھی بدترین کردیا ہے۔ ایف آئی اے کو لوگوں کی شہرت بچانے پر لگادیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کیا ایف آئی اے کو اور کوئی کام نہیں؟آپ نے تو اسے نیب قانون سے بھی بدترین کردیا ہے۔ اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد تو لوگوں نے ڈر کے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ آپ نے ایف آئی اے کو کس کام پر لگا دیا ہے۔ آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے۔ اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگرعمل نہ کیا۔

عدالت نے کہا کہ سیاسی قیادت اپنے فالوورزکو قابل اعتراض گفتگو پرسراہتی ہے۔ اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیسے ہیں؟ حقیقت بہت تلخ ہے۔ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پرچلنے والی چیزوں کی ذمہ دارہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اداروں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں۔ اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیوں ہونے چاہئیں۔ پھرآپ اسی سوشل میڈیا کے خلاف قانون لے آتے ہیں۔ میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ جس طرح لاہورسے دو صحافیوں کو اٹھایا گیا اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ یہ تو بہت سادہ سا معاملہ ہے، جب آرڈیننس بن جائے تو دونوں ایوانوں سے منظوری ہوتی ہے۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولزپڑھ کر بتاؤں گا، دونوں ہاؤسزنہیں، ایک ہاؤس سے بھی منظوری لی جا سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اگرایک ہاؤس بھی آرڈیننس کو مسترد کر دے تو وہ مسترد تصورہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارکرلیپ ٹاپ وغیرہ اٹھا لیے۔

ایف آئی اے نے دو صحافیوں کو بغیر نوٹس اٹھایا اور وہ کافی عرصہ غائب رہے۔ ایف آئی اے سے پوچھا کہ کیوں گرفتارکیا گیا تو بتایا کہ کمپلینٹ موصول ہوئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ ایک صحافی کو وی لاگ میں کتاب کا حوالہ دے کر ہسٹری بیان کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ اب کوئی ہسٹری بھی بیان نہیں کرسکتا؟ سترسالوں میں ہم ملک کو اس جگہ لے آئے اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے۔ برطانیہ میں تو بادشاہت کو بچانے کیلئے ہتک عزت کو فوجداری قانون بنایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ برطانیہ میں تو احتساب عدالتیں بھی نہیں ہیں۔ برطانیہ میں تو وزیراعظم کھا کر بھاگ بھی نہیں جاتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو ماحول بنا ہوا ہے اور جتنی نفرت پیدا ہو چکی ہے آپ کیا توقع کرتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے ترمیم میں پبلک باڈیزکی رپیوٹیشن کو بھی بچانے کی کوشش کی گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی نے کوئی تنقید کی تو وہ فوری گرفتارہوجائے گا۔ عدالت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سوشل میڈیا پر کیا ٹرینڈ چل رہا ہے۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو نیب کے قانون میں بھی اس بات کے خلاف تھا کہ گرفتاری کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جتنا نقصان نیب اوراس کے قانون نے پہنچایا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آپ بیان حلفی جمع کرائیں۔ آپ نے پبلک باڈیز کی ساکھ کو تحفظ دینے کی بھی کوشش کی۔ آپ نے ایکٹ کو بہت ہی چلنگ کردیا۔ عدالت کا ایک ہی ٹیسٹ ہے اور وہ ہے لوگوں کا اعتماد ہیں۔

عدالت نے مکالمے میں کہا کہ گرفتاری کا جو نکتہ ہے وہ نکال دیں جس پرخالد جاوید خان نے کہا کہ اگراس نکتے کو نکال دیں تو بچ کیا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا ایک قومی ادارے کو صحافیوں، سیاسی کارکنان کے خلاف استعمال کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریرپرنہیں ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریرپراس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بلال غوری نے ایک کتاب سے پڑھ کر تاریخی حقائق بیان کیے اور ایف آئی اے نے کارروائی کی۔

Advertisement

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک باڈیزیا اداروں کا کون سا بنیادی حق ہوتا ہے؟ انہیں تو تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہئے۔ اس آرڈی نینس کو پڑھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ آرڈی نینس لےکرآئے؟

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ بلکہ اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا جسے ملتوی کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یوگنڈا میں بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال دیا گیا ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ بیلجئم، جرمنی، آئس لینڈ میں یہ ہتک عزت کا جرم کریمنلائز ہے۔

عدالت نے کہا کہ آپ وہاں کی عدالتوں کے فیصلے بھی پڑھ لیں۔ مثال لیں کہ کوئی اپوزیشن رکن شکایت کرے کہ وزیریا وزیراعظم نے یہ بات کی ہے تو کیا آپ انہیں گرفتار کریں گے؟

Advertisement

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ روز سیاستدانوں کو چورڈاکو کہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں کہنا چاہئے جو ہو اسے بھی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے لیے بہت مشکل ٹاسک ہے۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اٹارنی جنرل رہا ہوں، سمجھ سکتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں تو ایک صحافی کو قتل کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی حکومت میں ہو وہ آزادی اظہار رائے کو پسند نہیں کرتا۔

Advertisement

ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے کلائنٹ محسن بیگ کے گھر سے لیپ ٹاپ بھی لے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو جرنلسٹس کے سورسز پر بھی پہنچ گئے ہیں۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ جرنلسٹس سے ان کا سورس نہیں پوچھا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظر آ رہا ہے کہ گھٹن کا ماحول ہے۔ اگر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ ہوتی تو یہ ملک ٹوٹتا نہیں۔ آپ کو کیا ضرورت ہے کہ جوڈیشری کی ساکھ کی حفاظت کریں۔ جوڈیشری کی ساکھ اس کے فیصلوں سے محفوظ رہے گی۔

عدالت نے کہا کہ بادی النظرمیں یہ آرڈیننس اور ہتک عزت کو فوجداری قانون میں ڈالنا آئین سے متصادم ہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ اپنے دلائل سے عدالت کو مطمئن کرلیں۔ کوئی کیس نہیں جس میں گرفتاری کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیدیں آئندہ سماعت پر دلائل دوں گا۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ اس دوران اگر ایف آئی اے نے کسی کو گرفتار کیا تو پھر کیا ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا پھرمیں اس کا دفاع نہیں کرسکوں گا۔ اس عدالت نے ایف آئی اے کو گرفتاری سے روکا ہے آرڈر میں توسیع کردیں۔ اس عدالت نے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 14 بھی دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر آج ہی ریاست کی طرف سے ایف آئی اے کے تمام کیسز کا دفاع کریں۔ ان افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی جنہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا

ترمیمی آرڈیننس کے اثرات اور نتائج کو کابینہ ارکان سے ڈسکس کروں گا اٹارنی جنرل کی عدالت کو یقین دہانی کے بعد کیس کی مزید سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بلوچستان میں ملک کا پہلا خودکار ڈیجیٹل ای۔فائلنگ سسٹم متعارف
پنجاب میں طوطوں کی رجسٹریشن لازمی قرار
چیئرمین پی ٹی اے نے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کو چیلنج کردیا
مریض پر نفسانی خواہش کو ترجیح دینے والے ڈاکٹر کو بحال کر دیا گیا
صدر کی چینی قیادت سے ملاقات، پاک چین تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق
پوسٹ پہلگام – مئی 2025 کی تقریب رونمائی ، عطا اللہ تارڑ اور دیگر مقررین کا خطاب
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر