
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ وکلا کی توپوں کا رخ اصل قلعہ کے تحفظ کیلئے ہونا چاہیے۔ عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد کے اعزاز میں ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ باراوربنچ میں ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیارنہیں ڈالے۔ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ ان باہمت ججز میں شامل ہیں۔ جسٹس مقبول باقر بھی ان دلیر ججز کا حصہ ہیں جو ابھی ریٹائر نہیں ہوئے
خالد جاوید خان نے کہا کہ قانون کی بالادستی کیلئے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔
انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس گلزاراحمد کے دورمیں عدلیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ کورونا میں عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی پھر بھی مقدمات کا بوجھ 53 ہزار سے تجاوز کرگیا۔ زیرالتوا مقدمات کا بوجھ آنے والے چیف جسٹس کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوموٹو کا اختیار پارلیمان نے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کو دیا۔ عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ادارہ اندر سے منقسم ہو تو بیرونی حملوں کیخلاف عوامی حمایت نہیں مل سکتی۔
خالد جاوید نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے آزاد بار ایسوسی ایشن پہلی دفاعی لائن ہے۔ وکلا کی سیاسی وابستگی ہوسکتی ہے لیکن توپوں کا رخ اصل قلعہ کے تحفظ کیلئے ہونا چاہیے۔ عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے۔
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے بلدیاتی اختیارات پر آج اہم فیصلہ صادرکیا۔ ججز تعیناتی کیلئے آئیڈیل طریقہ کار بنانا ضروری لیکن موجودہ نظام سے اچھے نتائج سامنے آئے۔ جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی بحث کی حوصلہ افزائی پر چیف جسٹس داد کے مستحق ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک قابلیت کی بنیاد پرسپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں۔ ججزتعیناتی میں شفافیت پرسمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News