Advertisement
Advertisement
Advertisement

پاکستان کی بانی جماعت “مسلم لیگ” کے زوال کی وجہ کیا تھی؟

Now Reading:

پاکستان کی بانی جماعت “مسلم لیگ” کے زوال کی وجہ کیا تھی؟

پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ جو اب پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) کہلاتی ہے، ملک کے سب سے بڑے لیکن سب سے زیادہ منقسم سیاسی وجود کے طور پر موجود ہے۔

اس کے متعدد دھڑے ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنا سیاسی زور آزما رہا ہے۔

مسلم لیگ کی بنیاد 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی، جو اب بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے، برطانوی حکمرانی والے ہندوستان میں اس نے ایک آزاد مسلم اکثریتی ملک کے لیے تحریک کی قیادت کی جس کا اختتام پاکستان کے قیام پر ہوا۔

آل انڈیا مسلم لیگ موجودہ بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والی ایک ادبی تحریک سے نکلی تھی۔

سر آغا خان، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، اور قومی شاعر علامہ محمد اقبال جیسی بلند پایہ سیاسی شخصیات کی موجودگی کے باوجود، اپنے عروج کے زمانے میں، یہ ایک اشرافیہ کا گروہ بنا رہا۔

Advertisement

یہ پاکستان کے بانی رہنما قائد اعظم محمد علی جناح تھے، جنہوں نے 1934 میں اس خطے میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی کے درمیان پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اسے ایک عوامی تحریک میں تبدیل کر دیا۔

23  مارچ 1940 کو لاہور کی مشہور قرارداد، جسے قراردادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے، قائداعظم کی قیادت میں اس وقت کے منٹو پارک لاہور میں ایک بڑے اجتماع میں منظور کی گئی، اس قرارداد میں پانچ مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔

بالآخر 3 جون 1947 کو ہندوستان کے آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ملک کی تقسیم کا اعلان کردیا اور 14 اگست کو پاکستان ایک آزاد ریاست بن گیا۔

مسلم لیگ کے زوال کا آغاز

محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے، لیکن آزادی کے ایک سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

لاہور میں مقیم تجزیہ کار اختر سندھو جو سیاست اور تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں نے ترک خبر رساں ادارے کو 2021 میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ “ایک آئیڈیل کے حصول کو ہمیشہ کامیابی سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ بیک وقت نئے چیلنجز پیدا کرتا ہے۔ اس پارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اچانک، یہ آل انڈیا مسلم لیگ سے پاکستان مسلم لیگ بن گئی، جس کے پاس آل انڈیا کانگریس جیسا کوئی چیلنج نہیں ہے۔”

Advertisement

پارٹی کے زوال سے پہلے کے واقعات اور وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے، سندھو نے کہا کہ پی ایم ایل نئے ملک میں چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ”جناح کے کیلیبر والا کوئی لیڈر نہیں تھا۔ وہ (دیگر سیاسی جماعتیں) جنہوں نے 1940 کی دہائی کے اواخر میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں اس پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا، ان کی پارٹی کے ساتھ مطلوبہ وابستگی اور لگن نہیں تھی۔”

سندھو نے پارٹی کے اندر “اندرونی کمزوریوں” اور “جمہوریت کی کمی” کو اس کے بتدریج زوال کی دیگر اہم وجوہات قرار دیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مورخ محمد رضا کاظمی نے 1951 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم اور جناح کے بااعتماد لیفٹیننٹ لیاقت علی خان کے قتل کو پارٹی کے زوال کا آغاز قرار دیا۔

انادولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے، کاظمی نے دعویٰ کیا کہ لیاقت علی خان کے قتل کا مقصد 1923 میں قائم کی گئی یونینسٹ پارٹی جیسی جاگیردارانہ پارٹیوں کو ایک نئی چھتری کے نیچے اقتدار میں واپس لانا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے کاظمی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دو مقبول قائدین جناح اور خان کی موت کے بعد مسلم لیگ دھڑے بندی کا شکار ہوگئی اور اپنی مقبول جڑیں کھو بیٹھی۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ، ایک بیوروکریٹک “گینگ آف فور” جس میں سابق گورنر جنرل غلام محمد، اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان، سابق صدر اسکندر مرزا اور سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی شامل تھے۔

مسلم لیگ کی میدان میں واپسی

انڈین کانگریس کی طرح مسلم لیگ بھی کئی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ تاہم تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (نواز گروپ) کو پارٹی کا اہم دھڑا سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کارمسلم لیگ کی بحالی کا سہرا شریف کو دیتے ہیں۔ کراچی میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار عبدالخالق علی نے اس حوالے سے کہا کہ، “1992 میں نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی نہ صرف شریف کے سیاسی سفر میں بلکہ پارٹی کے لیے بھی ایک اہم موڑ تھا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف جنہیں کبھی اسٹیبلشمنٹ کا “لاڈلہ” سمجھا جاتا تھا، نے 1992 کے بعد آہستہ آہستہ سیاست اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے آزادانہ نظریہ اختیار کرنا شروع کیا۔

علی کے مطابق، اپنے آزاد سیاسی خیالات اور بنیادی ڈھانچے کی ترقیوں نے انہیں اور ان کی پارٹی کو پچھلی تین دہائیوں میں عوام میں مقبول بنا دیا۔

Advertisement

دوسرے دھڑے

مسلم لیگ (ن) کے علاوہ، پی ایم ایل (قائداعظم)، اور پی ایم ایل (فنکشنل) دوسرے دھڑے ہیں، جو بالترتیب پنجاب اور سندھ صوبوں میں ایک بڑا ووٹ رکھتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے جانی جاتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) جسے سندھ کے کئی اضلاع میں ایک بڑا ووٹ بینک حاصل ہے، ایک روحانی فرقے کی طرح ہے، جنہیں”حُر” کہا جاتا ہے۔ ایک رضاکار فورس تھی جس نے روایتی حریف بھارت کے خلاف 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لیا۔

فوج کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کے لیے مشہور دھڑے کی قیادت پیر صاحب پگارا کر رہے ہیں، جو حروں کے روحانی پیشوا کا لقب ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اپنا ایک گروپ عوامی مسلم لیگ چلاتے ہیں اور اکثر گیریژن سٹی راولپنڈی میں اپنے حلقے سے جیت جاتے ہیں، جس میں فوج کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔

Advertisement

ایک اور چھوٹے دھڑے مسلم لیگ (ضیاء) کی قیادت سابق وفاقی وزیر، سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کر رہے ہیں۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سال 2026؛ رمضان المبارک کا آغاز کب سے ہوگا؟ تاریخ کی پیشگوئی
ہوا میں معلق رہ کر بجلی بنانے والی انوکھی ونڈ ٹربائن تیار
انسانیت کے ماتھے کا جھومر؛ فرانسیسی اداکارہ اڈیل ہینل کی فلسطین کیلئے قربانی
جلد پر ٹیٹو کی مقبولیت کم، اب کونسا ٹیٹو ٹرینڈ بن گیا
مکھیاں دور، گائے پُرسکون؛ انوکھا نوبل انعام، جاپانی محققین کے نام
فریکچر کو دھاتی پلیٹ یا راڈ کے بغیر جوڑنا ہوا اب ممکن؛ چین نے گلو تیار کرلیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر