Advertisement
Advertisement
Advertisement

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا

Now Reading:

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا
نور مقدم

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔ 

تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ملزمان کے وکلا اور پراسیکیوشن کے دلائل مکمل کر لیے گئے۔

سماعت کے آغاز میں مدعی کے وکیل نثار اصغر نے عدالت کے سامنے حتمی دلائل دیے جبکہ گزشتہ سماعت میں تمام ملزمان کے وکلاء نے حتمی دلائل مکمل کر لیے تھے۔

مدعی وکیل نثار اصغر نے دلائل میں کہا کہ ملزمان کے وکیل کے دلائل تھےکہ ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔

مدعی کے وکیل نے دلائل دیے کہ یہ وقوعہ عید کے دن ہو رہا ہے اور وہ بھی عید الاضحی جس میں تین چھٹیاں ہوتی ہیں۔ سی ڈی آر اور ڈی وی آر وکلا کے پاس تھی ثابت کر دیں مدعی دس بجے سے پہلے جائے وقوعہ پر تھا۔ شوکت مقدم 11 بج کر 45 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچا۔ شوکت مقدم کا بیان ہے قتل کے حوالے سے دس بجے آگاہ کیا گیا اور 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا۔

Advertisement

مدعی وکیل نثار اصغر نے دلائل میں کہا کہ گواہ پولیس کانسٹیبل اقصی رانی کہتی ہےکہ دس سوا دس بجے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔ کرائم سین کا انچارج عمران کہتا ہےکہ میں 10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گیاتھا۔ دس بجے سے پہلے صرف پولیس اہلکار بشارت رحمان جائے وقوعہ پر پہنچا تھا۔

مدعی وکیل نے کہا کہ تھراپی ورکس کے ملازمین جائے وقوعہ پر موجود تھے اور تھانہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ اگر سب کچھ تھانے میں بیٹھ کر کیا گیا ہو تو ایف آئی آر میں مختلف تحریریں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

مدعی وکیل شاہ خاور نے دلائل دیے کہ ڈی وی ار، سی ڈی ار، فورینزک اور ڈی این ائے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں۔ تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں۔ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا۔ عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے۔

مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور کے دلائل ختم ہونے کے بعد پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈی وی آر میں سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں آیا، کوئی شک ہے ہی نہیں۔ نکل گلووز پر نورمقدم کا خون لگا ہوا ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ نورمقدم کو قتل سے قبل ٹارچر کیا گیا۔

،پراسیکیوٹر رانا حسن نے دلائل میں کہا کہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے ڈی وی آر کو منظور کیا کہ اس میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی۔ نورمقدم نےجب چھلانگ ماری تو وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں پارہی تھی۔ اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے۔ نورمقدم قتل کیس کو عدالت ایک مثالی کیس بنائے اور ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔

ملزمہ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال نے جوابی دلائل میں کہا کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ تفتیش چلتی رہی لیکن کال ڈیٹا کی بات نہیں کی۔ ہم نے تو کال ڈیٹا ریکارڈ کو مانا ہی نہیں ہے۔ سوال کیا گیا نور مقدم کی والدہ کو شامل تفتیش کیا گیا۔ پراسیکیوشن کے گواہ نے ہی یہ بتایا لیکن اس کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا۔

Advertisement

اسد جمال کے جوابی دلائل ختم ہونےکے بعد ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے جوابی دلائل دیے۔

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے فیصلہ محفوظ کرتے کہا کہ نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔

بیس جولائی 2021 کو نورمقدم کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا تھا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
محسن نقوی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلئے پریکٹس سیشن میں پہنچ گئے
3 لاکھ 50 ہزار حج درخواست گزاروں کا ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک
پاکستان میں کالے جادو پر قید اور بھاری جرمانے کی تجویز، نیا بل سینیٹ میں پیش
آئی اے ای اے نے پاکستان کے سول نیوکلیئر پروگرام کو تسلی بخش قرار دیدیا
پاکستان سے مانچسٹر جانے والوں کے لیے خوشخبری
معصوم ارتضیٰ کی شہادت باہمت والدین کی استقامت اور وطن سے لازوال محبت کی انمول داستان
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر