
سندھ حکومت
حکومت سندھ کے قرضوں میں اضافے کے باوجود ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔
حکومت سندھ کے ترقیاتی اخراجات مسلسل کم ہو رہے ہیں ۔ مالی سال 19-2018 میں ترقیاتی اخراجات سب سے کم رہے ، جو صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بھوک وافلاس میں کمی لانے کے لیے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے ایک مثبت اشاریہ نہیں ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 20-2019 کے لئے رپورٹ مرتب کرلی ہے۔ سندھ حکومت کے مالی حسابات میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے قرضوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور اعداد و شمار سے واضح طور پر ظاہر ہورہا ہے کہ مالیاتی وسائل کا بڑا حصہ ترقیاتی شعبے سے قرضوں کی ادائیگی کی طرف منتقل ہو گیا ہے جب کہ یہ قرضے گذشتہ سالوں میں لئے گئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 18-2017 کے مقابلے میں مالی سال 19-2018 میں حکومت سندھ کی مجموعی آمدنی میں 9 فیصد اضافہ ہوا لیکن اخراجات میں 8 فیصد کمی ہوئی ۔ اخراجات میں کمی کا بنیادی سبب ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی ہے۔
مالی سال 19-2018 میں مختص ترقیاتی بجٹ 282 ارب روپے تھا جس میں 173 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی اور یہ کٹوتی 61 فیصد بنتی ہے جب کہ صرف 39 فیصد ترقیاتی بجٹ (یعنی 109 ارب روپے ) خرچ کیا گیا ۔
ترقیاتی بجٹ میں سے اثاثہ جات، سول ورکس اور مرمت و مینٹی ننس پر بالترتیب 92 فیصد ، 49 فیصد اور 42 فیصد کم اخراجات کئے گئے جب کہ اس کے مقابلے میں قرضوں کی واپسی یا ادائیگی پر بالترتیب 262 فیصد اور 49 فیصد زیادہ اخراجات کئے گئے ۔ 19-2018 میں 47.286 ارب روپے کے قرضے واپس کئے گئے جب کہ قرضوں کی سروسنگ پر 5.733 ارب روپے کے اخراجات کئے گئے ۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 17-2016 میں ترقیاتی اخراجات کل اخراجات کا 23.54 فیصد ، مالی سال 18-2017 میں 24.14 فیصد اور مالی سال 19-2018 میں صرف 12.61 فیصد تھے ۔ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی ایک وجہ فیڈرل گرانٹس میں کمی بھی ہے، جو ترقیاتی منصوبوں پر دی جاتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال 19-2018 میں آڈٹ کے دوران بجٹ اخراجات میں تقریبا 298 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی ۔
ان میں ملازمین کے اخراجات سے متعلق 3 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے ، خریداری سے متعلق 47 ارب 90 کروڑ 24 لاکھ روپے ، کمرشل بینکس کے ساتھ اکاونٹس کی مینجمنٹ میں 5 ارب 6 کروڑ 64 لاکھ روپے ، سروس ڈیلیوی سے متعلق 9 کروڑ 64 لاکھ روپے اور دیگر شعبوں سے متعلق ایک کھرب 19 ارب 53 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ریکارڈ کی گئیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک کھرب 14 ارب روپے کے اخراجات سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جب کہ 37 کروڑ روپے سے زیادہ فراڈ اور خورد برد کے کیسز رپورٹ ہوئے ۔ رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ کے اخراجات میں بے ضابطگیوں کے بنیادی اسباب یہ ہیں کہ سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (SPPRA ) کے قواعد پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ۔
گورنمنٹ ٹیکسز کی مقررہ ریٹس پر وصولی نہیں کی جاتی ، ہیومن ریسورس سے متعلق معاملات میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جاتا اور حکومتی اداروں کی طرف سے آڈٹ کئے جانے والے ریکارڈ تک رسائی کی اجازت نہیں دی جاتی ۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی یہ رپورٹ حکومت سندھ کی معاشی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ جو حلقے صوبوں کو زیادہ خود مختاری دینے کے مخالف ہیں ۔ وہ اس رپورٹ کو اپنے موقف کی تائید میں استعمال کر سکتے ہیں ۔
اس رپورٹ سے حکومت سندھ ان دعووں پر بھی سوالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ سندھ میں ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ کی فنانشل مینجمنٹ دیگر صوبوں سے بہتر ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News