Advertisement
Advertisement
Advertisement

نیند سے بیداری کے لئے درست ترین الارم کون سا ہے؟

Now Reading:

نیند سے بیداری کے لئے درست ترین الارم کون سا ہے؟

اسٹریلیا میں نیند سے بیدار ہونے کے لئے ایک ایسے الارم یا دھن کو تلاش کیا جارہا تھا جو نہ صرف نیند سے بیدار کردے بلکہ جسم میں توانائی کا باعث بھی بنے تاہم اب اسے تلاش کر لیا گیا ہے۔

دنیا کی بڑی آبادی وقت مقررہ پر نیند سے بیدار ہونے کے لئے الارم کا سہارا لیتی ہے اور اس مقصد کے لئے ہزاروں کی تعداد میں مختلف دھنیں ترتیب دی جاچکی ہیں لیکن کونسی دھن آپ کو نیند سے درست انداز میں بیدار کرتی ہے یہ سوال ایک عرصے سے سائنسدانوں کے لئے سر کا درد بنا ہوا تھا، تاہم اب اس کا جواب تلاش کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس قسم کا سوال 500 قبل مسیح میں یونانیوں کی جانب سے بھی کیا گیا تھا تاہم سائنسدانوں کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ  بعض اقسام کی فری کوئینسی اور فی منٹ بیٹ والے الارم دماغ کے بیداری والے حصے کو زیادہ سرگرم کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ بہتر طور پر بیدار ہوسکتے ہیں۔

اس تحقیق میں کسی گانوں اور دھنوں کو جانچنے کے بعد ماہرین نےکا کہنا  کہ مائیکل جیکسن کا بچپن میں گایا ہوا ایک گانا اے بی سی بہترین مثال تصور کی جارہی ہے جو جو انہیں نے گیارہ برس کی عمر میں گایا تھا۔

اس گانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی فریکوئنسی 500 ہرٹز ہے اور اس میں بیٹس کی تعداد 100 تک ہے۔ یہ دونوں عناصر مل کر ایک ایسی دھن بناتے ہیں جو دماغ کی بیداری کے حصے کو سرگرم کرتے ہیں اور ہم توانائی بھرے انداز میں آنکھیں کھول سکتے ہیں۔

Advertisement

آسٹریلیا کی مشہور آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں صوتیات کے ماہر ڈاکٹر اسٹوارٹ مک فرلین اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ  فون پر الارم کا انتخاب اس کی دھن کی بنا پرکیا جاتا جبکہ یہ رویہ درست نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر تفصیلات کو بھی دیکھنا نہایت ضروری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بیدار ہونے کا انداز اگر صحیح نہ ہوتو اس کا اثر پورے دن ہمارے بدن پر رہتا ہے، اس کے علاوہ دن کے امور مثلاً ڈرائیونگ وغیرہ کو بھی مشکل بناسکتا ہے، اس کیفیت کو سائنسدانوں نے ’نیند کا جمود‘ یعنی سلیپ انرشیا کا نام دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صبح کا الارم ایسا ہونا چاہیے جو ایک سوئچ کی طرح کام کرکے ہمیں مکمل طور پر بیدار کرسکے۔  بیدار ہونے پر دماغ میں پریفرنٹل کارٹیکس بہت دیر میں سرگرم ہوتا ہے جبکہ دیگر حصے قدرے جلدی جاگ اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ درست الارم کی فری کوئنسی  ہی دماغ کے درست حصے کو بیدار کردیتی ہے۔

ہمارے جاگنے کے لیے ضروری ہے کہ دماغ کے تمام حصوں میں خون کی روانی عین اسی طرح ہوجائے جو بیداری میں ہوتی ہے اور بعض فری کوئنسی کی آوازیں اس میں مدد دے سکتی ہے۔ ہلکی نیند میں ہماری برقی لہریں تھی ٹا شعاعیں خارج کرتی ہیں  جبکہ گہری ترین نیند میں ڈیلٹا لہریں خارج ہوتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق 18 سے 25 سال تک کے افراد میں الارم بلند ہونا چاہیے تاہم الارم کا سائنسی فارمولہ یہ ہوگا۔ الارم کی فری کوئنسی 500 ہرٹز تک ہو اور اس میں دھمک یا بیٹس کا شمار 100 سے 120 ہونا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت چھوٹے بچوں پر بھی یہی فری کوئنسی کے الارم بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ٹیٹو کس مہلک مرض کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے؟
لاہور: جناح اسپتال و علامہ اقبال میڈیکل کالج کی لیب میں ڈبل ایکسپائر بلڈ کلچر وائلز کا اسکینڈل بے نقاب
کراچی میں آشوبِ چشم کی وبا پھیلنے لگی
سرجری کے بغیر دماغ کی اندرونی حصوں تک بہتر رسائی فراہم کرنے والا انوکھا ہیلمنٹ تیار
فریکچر کو دھاتی پلیٹ یا راڈ کے بغیر جوڑنا ہوا اب ممکن؛ چین نے گلو تیار کرلیا
ڈاکٹرز صرف معالج نہیں، مسیحا ہونے چاہئیں، مصطفیٰ کمال
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر