Advertisement
Advertisement
Advertisement

مغربی ذرائع ابلاغ کی زرد صحافت پر سوشل میڈیا صارفین سیخ پا

Now Reading:

مغربی ذرائع ابلاغ کی زرد صحافت پر سوشل میڈیا صارفین سیخ پا

مغربی ذرائع ابلاغ کی صحافتی اقدار کی پامالی پر سوشل میڈیا صارفین نے ان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔

تفصیلات کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے، ایسے میں مغربی ذرائع ابلاغ کو دہرا معیار اپنانے اور نسلی تعصب برتنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

 سماجی رابطے کی سائٹس پر مغربی ذرائع ابلاغ اور یورپی و امریکی صحافیوں کی ان رپورٹس اور خبروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس میں یکطرفہ طور پر وہ صرف یوکرین کی مزاحمت دکھا رہے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کےکیف میں موجود سینیئر نمائندے کا براہ راست نشریات کے دوران کہنا تھا کہ یہ عراق یا افغانستان نہیں جو کہ دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہیں بلکہ یہ قدرے مہذب اور یورپی لوگ ہیں۔ ایسا شہر جس کے بارے میں آپ اس  طرح کے حالات سوچ بھی نہیں سکتے، وہاں اب ایسا ہورہا ہے۔

 

Advertisement

 

Advertisement

اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید  کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بیان مکمل طور پر غیر انسانی ہے اور ظاہرکرتا ہےکہ تنازعات کے شکار غیر سفید فام اور غیریورپی اقوام کےساتھ مرکزی دھارے میں شامل میڈیا کا کس طرح کا رویہ ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک پروگرام میں  یوکرین کے سابق ڈپٹی جنرل پراسیکیوٹر سے بات کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ  یہ میرے لیے انتہائی جذباتی موقع ہےکیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے  یورپی لوگ روزانہ پیوٹن کے میزائلوں،راکٹوں اور ہیلی کاپٹر حملوں میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ نسلی امتیاز پر مبنی اس بیان پر بی بی سی کے اینکر نے مزمت کرنے کے بجائے کہا کہ میں یہ سمجھ سکتا ہوں اور آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔

اس معاملے پر بھی سوشل میڈیا صارف کا طنزاً کہنا تھا کہ سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بم برسائیں تو وہ ٹھیک ہے۔ایک صارف نے کہا کہ سفید فام افراد کی برتری ظاہر کرنا یورپ کی بنیادی اقدار ہے۔

ایک اور برطانوی ٹی وی چینل اسکائے نیوز نے ایک ویڈیو نشرکی جس میں وسطی یوکرین میں شہریوں کو دفاع کے لیے پیٹرول بم تیار کرتے ہوئے دکھایا گیا اور انہیں سراہا گیا۔

اس پر صارف کا کہنا تھا کہ اگر یہ کام فلسطین، افغانستان یا کسی اور قوم کے لوگ قابض افواج کے خلاف مزاحمت کے لیے کرتے تو اسے دہشت گردی کہا جاتا، بلکہ نیلسن منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دور میں اسے دہشت گردی کہا بھی جاچکا ہےتاہم اب جب یورپی شہری اسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں تو یہ مزاحمت کہلائی جارہی ہے جو کہ مغرب کے دہرے معیار کی واضح علامت ہے۔

Advertisement

 

 

 

 علاوہ ازیں،   صارفین نے جنگ زدہ علاقوں بشمول  افغانستان، عراق، یمن اور فلسطین کے مقابلے میں یوکرین کو زیادہ توجہ دینے پر مغربی ذرائع ابلاغ کو  تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
غزہ کے لیے امدادی مشن: گلوبل صمود فلوٹیلا کے قریب مشکوک ڈرونز کی پرواز
امریکا نے مغربی ممالک کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو نمائشی اقدام قرار دے دیا
اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر سربراہی کانفرنس آج
آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس ہوگا ، حماس کا ردعمل
برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا
کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، نیتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی پر قائم
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر