
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سندھ کے مویشیوں میں پھیلنی والی بیماری انسانوں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سندھ کے گائے، بھینس، بکریوں و دیگر مویشیوں میں جِلدی مرض ’گانٹھ‘ جسے انگزیری میں ’لمپی اسکن ڈیزیز‘ کہا جاتا ہے۔
سندھ کے مویشیوں میں پھیلنے والے اس خطرناک وائرس کی وجہ سے بری تعداد میں مویشی موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یہ وائرس بہت تیزی سے دوسرے جانوروں میں بھی پھیل رہا ہے۔
جانوروں میں پھیلنی والی یہ بیماری انسانوں کو کتنا متاثر کر سکتی ہے اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری انسانوں کے لئے بھی خطرناک ہے اور انسانوں کو براہِ راست متاثر کر سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں شہری گائے کے گوشت کا استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ رہے ہیں اور اس حوالے سے پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آیا گائے کا گوشت یا پھر دودھ وغیرہ کی ضرورت کیسے پوری کریں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
لمپنی اسکن ڈیزیز وائرس (ایل ایس ڈی وی) سے انسانوں کو کتنا خطرہ ہے اس حوالے سے ماہرین کی متضاد آراء پائی جاتی ہیں، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انسان کو براہ راست بھی متاثر کرسکتا ہے اور کوئی مچھر یا کیڑا بھی اس کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انسانی جسم میں یہ وائرس متاثرہ اشیاء کے استعمال، متاثرہ شخص اور دیگر طریقوں سے بھی داخل ہوسکتا ہے۔ انسانوں میں بھی یہ وائرس جلدی مرض کا سبب بن سکتا ہے۔
البتہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ لمپی اسکن ڈیزیز سے انسانوں کے متاثر ہونے کے اب تک کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں تاہم بہتر ہے کہ اگر کسی علاقے کے مویشیوں میں یہ وائرس پھیل جائے تو کچھ عرصے تک ڈیری مصنوعات کا استعمال ترک یا کم کر دیں۔
یہ بیماری ہے کیا؟
دراصل لمپی اسکن ڈیزیر ایک معتدی جلدی مرض ہے اور یہ وائرس گائے، بھینسوں اور دیگر مویشیوں کو خون چوسنے والے کیڑوں، مچھروں اور مکھی سے لگ سکتا ہے، اس مرض کے شکار جانور کی جلد پر تکلیف دہ پھوڑے اور زخم ہوجاتے ہیں، جانور کو بخار رہتا ہے، آنکھوں سے پانی آتا ہے، بھوک نہیں لگتی اور جانور چلنے پھرنے سے گریز کرتا ہے۔
اس وائرس میں مبتلا جانور کی تولیدی صلاحیت، دودھ کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے، جانوروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے جانوروں میں اس بیماری کی زیادہ علامات ظاہر نہیں ہوتیں تاہم یہ بعض کیسز میں جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے۔
ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟
سندھ کی عوام کو اس مویشیوں میں پھیلنے والے اس وائرس سے بچنے کے لئے چند دنوں تک گائے کے گوشت، دودھ، مکھن، اور دیگر اشیا کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے، یہ پھیلنے والی بیماری ہے لہٰذا اس سے متاثرہ علاقوں میں گوشت، دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات کی قلت بھی ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ وائرس جوتوں اور دیگر زرعی آلات کے ساتھ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہے۔
وائرس کہاں سے شروع ہوا؟
1970 کی دہائی میں پہلی بار یہ بیماری جنوبی افریقا میں سامنے آئی اور اس کے بعد ترکی، روس، چین پہنچی، 2019 سے یہ بیماری بھارت، تائیوان، ویتنام میں پھیلنا شروع ہوئی جبکہ 2021 میں یہ وائرس میانمار، تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا، ملائیشیا کے جانوروں میں بھی پایا گیا اور اب یہ بیماری پاکستان میں بھی پہنچ گئی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News