
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے وکلا کے ذریعے اپنے مؤقف لارجر بنچ میں پیش کریں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی رکن اجلاس میں نہ آنا چاہے تو زبردستی نہیں لایا جائے گا۔ پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔
جسٹسن منیب اختر نے کہا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکےاوراس کا ممبر اسمبلی چلا جائے تو کیا ہو گا؟
خالد جاوید خان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس نقطے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس بعد میں سنیں گے۔ صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ تشکیل دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر ارٹیکل 63 اے کی کارروائی ہوگی۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ حکمران جماعت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں۔ بطور اٹارنی جنرل کسی اپوزیشن جماعت پر بھی الزام نہیں لگاؤں گا۔
اٹارنی جنرل کہا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو نے عدم اعتماد پر اراکین کو زبردستی لانے کا حکم دیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوسکتا تھا۔ کوئی بھی سرکاری آفیسر غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں۔ یقین دہانی کرواتا ہوں کہ پارلیمانی کارروائی آئین کے مطابق ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل کہتے ہیں کہ یہ جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ عملی طور پر تحریک انصاف نے جمہوری عمل کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناع نہیں مانگ رہے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کی وجہ سے اسمبلی کارروائی متاثر نہیں ہوگی۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ووٹ شمار ہونے پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہوگا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں واقعہ پر اٹارنی جنرل کا مؤقف خوش آئند ہے۔ توقع ہے حکومت بھی سندھ ہاؤس واقعے کی مذمت کریگی۔ تمام سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے مذید کہا کہ بعض غیر ذمہ داران سیاست میں آکر ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے وکلا ریفرنس پڑھ کر تیاری کریں۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ کا لارجر بنچ کیس کی سماعت 24 مارچ کو کرے گا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے منظور ریفرنس اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے آج ہی سپریم کورٹ میں دائر کیا۔
حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ سے 4 سوالوں کا جواب مانگا گیا۔
صدارتی ریفرنس میں پہلا سوال میں عدالت سے پوچھا گیا کہ آرٹیکل 63 اے کی کونسی تشریح قابل قبول ہے؟ اول، کیا پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا؟ دوئم یہ کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا،ایسا کرنے والا تاحیات نااہل ہوگا؟
صدارتی ریفرنس کے مسودے میں عدالت عظمٰی سے دوسرے سوال میں پوچھا گیا کہ کیا منحرف ارکان کا رکن ووٹ شمار ہوگا یا گنتی میں شمار نہیں ہوگا؟
سوال نمبر تین میں کہا گیا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین نہیں رہے گا؟ کیا ایسا ممبر تاحیات نااہل ہوگا؟
صدارتی ریفرنس کے سوال نمبر چار میں پوچھا گیا کہ فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟
مسودے کے مطابق آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل صدرمملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی جس کے تحت صدرِمملکت نے وزیرِاعظم کےمشورے پرسپریم کورٹ کی رائے مانگی۔
ریفرنس کچھ ممبران پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، موجودہ حالات کے پیش نظر فائل کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News