جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ آئین سازوں نے جہاں مناسب سمجھا نا اہلی لکھ دی۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں آئین سازوں نے نااہلی کا نہیں لکھا۔
تفصیلات کے مطابق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کے آغاز میں کمالیہ میں وزیراعظم کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم کا بیان عدالت کے سامنے پیش کیا۔
وزیراعظم کے بیان کے مطابق کہ کمالیہ تقریر میں 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی۔ عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کی ناہلی پانچ سال یا تاحیات ہو سکتی ہے۔ منحرف رکن کی نا اہلی باقی رہ جانے والے اسمبلی مدت تک بھی ہو سکتی ہے۔ منحرف رکن نیوٹرل ہو کر پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دے تو اس کی نا اہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔
خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نا اہلی تاحیات ہے۔ مس کنڈکٹ پرنا اہلی پانچ سال ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرکے نا اہلی کے مدعت کے تعین کی وجوہات بتائے۔
اٹارنی جنرل نے منحرف رکن کی نا اہلی کی مدت کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کو کوئی نتائج نہ بھگتنا پڑے۔ منحرف رکن باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک نا اہل ہوسکتا ہے۔ منحرف رکن پانچ سال کیلئے نا اہل ہوسکتا ہے۔ منحرف رکن تاحیات نا اہل ہوسکتا ہے۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ منحرف رکن کو آئندہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔ چوری کو اچھائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا۔
خالد جاوید خان نے دلائل میں کہا کہ آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کا نہیں۔ اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے۔ اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی کی مدت پورے ہونے تک نااہلی سے ارٹیکل 63A کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد تاحیات نااہلی پرہی پورا ہوگا۔ سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 5 سال تک نااہل قراردینے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کردیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈیکلریشن جاری کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعے تعین کرنے کا فورم کیوں رکھا گیا ہے۔ بری کرنا زیادہ بڑا جرم نہیں لیکن بے گناہ کو باقیوں کے ساتھ بلی چڑھا دینا زیادہ سنگین جرم ہے۔
عدالت نے کہا سارے چورنہیں ہونگے, ایماندار بھی ہونگے۔ ڈی سیٹ کیا بڑی سزا نہیں ہے۔ بلوچستان میں لوگ انتخابات کے دوران قتل ہوتے ہیں۔ ایماندارشخص کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا آئینی حق ہے۔ آپ ایماندار شخص پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ لینے کی بنیاد پر تاحیات نا اہلی کی تلوارلٹکانا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ آئین بنانے والوں کیلئے ڈی سیٹ ہونا بہت بڑی بات ہے۔ چوری ثابت کرنے کیلئے طریقہ کار کو اپنانا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی مین حقائق چھپانے پر کونسا ٹرائل ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ تک منحرف رکن کے پاس فورمزموجود ہیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اراکین منحرف ہو جاتے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ فورم اس سوال کے جواب کیلئے نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ اراکین منحرف کیوں ہوتے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اٹارنی جنرل کو چیف جسٹس نے بولنے سے روک دیا
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جج صاحب کو پہلے بات مکمل کرنے دیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ ہم سے حکومت یہ کام کیوں کرانا چاہتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اثاثے چھپانا ووٹرز کو دھوکا دینے سے زیادہ سنگین جرم نہیں؟ایک گاڑی ظاہرنہ کرنے پر تاحیات نااہلی ہوجاتی ہے۔ ووٹرز انتحابی نشان پر ووٹ ڈالتے ہیں نام نہیں پڑھتے۔ ووٹرز کو دھوکا سسٹم کیساتھ دھوکا ہوتا ہے۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کسی بنکر کو سو روپیے کی چوری بھی نہیں کرنے دیتی۔ جھوٹے بیان حلفی پر بھی کوئی ٹرائل نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صفائی کا موقع تو بیان حلفی دینے والے کو ملتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں صفائی کا موقع اور اپیل کا حق ہے۔
’سزائے موت سے زیادہ سخت سزا نہیں ہوتی لیکن پھر بھی لوگ قتل کرتے ہیں‘
جسٹس جمال خان نے کہا کہ آپ تین دن سے سخت قانون بنوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سزا موت سے زیادہ سخت سزا نہیں ہوتی لیکن پھر بھی لوگ قتل کرتے ہیں۔ لوگ انحراف کیوں کرتے ہیں کونسی طاقتیں انحراف کرواتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انحراف کون اور کیوں کرواتا ہے، یہ عدالتی فورم کے سوال نہیں۔ جس کا ضمیر جاگے وہ میریٹ میں پیسے نہیں گن رہا ہوتا۔ منحرف اراکین اور انحراف کرانے والے کبھی سخت قانون نہیں بننے دیں گے۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالتی رائے کا اطلاق تمام منحرف اراکین پرہوگا۔ ایسا ممکن نہیں ایک جماعت کے منحرف اراکین اچھے اور دوسری کے برے ہوں۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کو دیگرآرٹیکلز سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا۔ عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے چکی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کاش کوئی ایک منحرف رکن استعفی دیتا۔ کیوں کوئی اتنا رسک لے رہا ہے کہ دوبارہ الیکشن لڑنے کیلئے پیسہ لگائے۔ کیا بہت زیادہ پیسہ کما لیا گیا ہے۔
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ آئین بنانے والوں نے جہاں ضروری تھا وہاں نا اہلی کے الفاظ لکھے۔ 63 اے میں تو ڈی سی لکھا ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا ایک باپ اپنے بچوں کو فخر سے کہہ سکتا ہے کہ مجھے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم نے توازن قائم کرنا ہے۔ ہم نظام کی روانی اورعوام کیلئے فیصلہ کریں گے۔ وہ فیصلہ کریں گے جو عوام کے حق میں ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے یقین ہے اگلا سینٹ الیکشن ٹریس ایبل بیلٹ پرہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کیا الیکن کمیشن نے کوئی قدم اٹھایا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہا اگلا سینٹ الیکشن سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق ہوگا۔ منحرف اراکین بے ایمانی کررہے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے پوچھا کہ آپ بے ایمانی کیوں کہہ رہے ہیں؟ کسی کا اصولی مؤقف بھی ہوسکتا ہے۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ ایک کشتی کو ڈبو کر دوسری میں جانا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ داراصل وہ کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبے گے۔ کیا کوئی اپنی مرضی سے سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم سے رشتہ توڑ کر کسی سے بھی جوڑلیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ حکومت کا منحرف اراکین کیساتھ رشتہ سیٹ کا ہے۔
خالد جاوید نے کہا کہ حکومت کا اراکین سے رشتہ اعتماد ہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے پارٹی انحراف پر ڈی سیٹ سزا ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہے انحراف کے بعد دوبارہ الیکشن لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ آئین سازوں نے جہاں مناسب سمجھا نااہلی لکھ دی۔ ارٹیکل تریسٹھ اے میں آئین سازوں نے نااہلی کا نہیں لکھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ استعفی دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس پرسماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔
جمعرات اور جمعہ کو بنچ میسرنہیں ہوگا، کل کے بعد کیس کی سماعت آئندہ پیر کو ہوگی۔
ایماندار شخص کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا آئینی حق ہے، سپریم کورٹ
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
