
وزیراعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر 3 اپریل بروز اتوار قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی اور ان کے اقتدار کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
عمران خان اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بیرونی سازش کا بھانڈا پھوڑنے سے لے کر سڑکوں پر احتجاج تک ہر حربہ اپنانے میں مصروف رہے۔
تاہم یہ یقینی ہے کہ ان کی حکومت کے مستقبل کا فیصلہ سڑک پر نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ہوگا۔
ایسی صورتحال میں عوام کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی رول بک اس بارے میں کیا کہتی ہے۔
اقتدار کس کو ملے گا؟
پاکستانی قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 ہے اور ایک رکن کی موت کے بعد یہ تعداد اس وقت 341 ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کی کرسی حاصل کرنے کے لیے جادوئی عدد 172 ہے، یعنی جس پارٹی کو 172 ارکان کی حمایت حاصل ہو وہی حکومت سازی کرے گی۔
عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی ایوان میں سب سے بڑی جماعت ہے، لیکن اس کے اپنے صرف 155 ارکان ہیں۔
سال 2018 میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے اب تک وزیراعظم عمران خان چند چھوٹی جماعتوں کی حمایت سے حکومت چلا رہے ہیں، جن میں سے 3 اہم جماعتوں نے اپنی حمایت واپسی لے لی ہے۔
ایم کیو ایم نے اپنے 7، بی اے پی نے 3 اور بی این پی نے اپنے 4 ووٹ اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں دینے کا اعلان کیا ہے۔
ان کی حمایت سے اب تک 165 کی طاقت پر چلنے والی اپوزیشن جماعتوں کی ٹیم کے اعداد و شمار179 تک پہنچ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والے 20 سے زائد ایم پی ایز کی تعداد کو شامل کیا جائے تو یہ اپوزیشن ارکان کو 199 ایم این ایز کی تائید حاصل ہوجائے گی۔
اس وقت حزبِ اختلاف کو کتنے اراکین کی تائید حاصل ہوتی ہے یہ کہنا مشکل ہوگا۔ اصل امتحان اتوار کو قومی اسمبلی میں ہوگا۔
فی الحال اعداد شمار کے مطابق عمران خان کا وزارت عظمیٰ کے عہدے سے محروم ہونا طے سمجھا جا رہا ہے۔
لیکن ایسی صورتحال میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل آسان نہیں ہوگا۔
قومی اسمبلی کے مینول (قواعد) میں کہا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم کی کرسی خالی ہوتی ہے تو سب سے پہلے ایوان میں اگلے وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع کیا جائے گا۔
رول بک کے مطابق کوئی بھی رکن اس اعلیٰ عہدے کے لیے کسی مسلمان امیدوار کے نام کی تجویز اور حمایت کر سکتا ہے۔
لیکن کسی رکن کا نام صرف ایک بار تجویز کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے نامزدگی داخل کی جائے گی۔
الیکشن کے لیے ایک سے زائد امیدوار بھی اپنی امیدواری کا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔
امیدوار کی نامزدگی کو درست یا کالعدم قرار دینے کا فیصلہ نیشنل اسمبلی کے چیئرمین (اسپیکر) کے پاس ہوگا۔
یعنی موجودہ کیس میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے موجودہ چئیرمین اسد قیصر کا کردار اہم ہوگا۔
اسپیکر تجویز کنندہ اور اس کے حامیوں کی موجودگی میں نامزدگی کی منظوری کا فیصلہ کرے گا۔
ساتھ ہی کسی بھی کاغذات نامزدگی کی منسوخی کی وجہ بھی بتائی جائے گی، تاہم منظوری یا مسترد ہونے پر اسپیکر کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔
کاغذات نامزدگی اور ان کی جانچ پڑتال کا عمل پولنگ کے دن سے کم از کم ایک دن پہلے کیا جاتا ہے۔
ووٹنگ کے دن اسپیکر امیدوار کا اعلان کرتا ہے، انتخابی عمل میں اگر صرف ایک امیدوار کا نام آتا ہے تو اس کا فیصلہ ایوان کی اکثریت سے کیا جائے گا۔ جس کے بعد اسپیکر منتخب لیڈر کے نام کا اعلان کر سکتا ہے۔
لیکن اگر اسے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی تو پھر یہ سارا عمل دوبارہ دہرایا جائے گا۔
جبکہ دو سے زائد امیدواروں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں اگر کسی کو بھی اکثریت حاصل نہ ہو تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کسی ایک نام کو اکثریت حاصل نہیں ہو جاتی۔
کیا عمران خان فوراً وزرتِ عظمیٰ سے فارغ ہوجائیں گے؟
مقررہ طریقہ کار کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی قائد ایوان کے انتخاب کی معلومات صدر مملکت کو بھیجتا ہے اور پھر اس کے لیے ضروری گیزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان اکثریت سے محروم ہونے کے بعد فوری طور پر گھر چلے جائیں گے؟
اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور ناں میں بھی، کیونکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 94 کے تحت صدر عمران خان کو اگلے وزیر اعظم کے چارج سنبھالنے تک امور سنبھالنے کی ذمہ داری دے سکتے ہیں۔ یعنی عمران کچھ عرصے کے لیے نگراں کاروزیر اعظم بھی رہ سکتے ہیں۔ تاہم نئے سربراہ کا انتخاب مکمل ہوتے ہی انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News