Advertisement
Advertisement
Advertisement

نگراں حکومت کا کام کیس کی وجہ سے رُکا ہوا ہے، فیصلہ جلد سنانا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ

Now Reading:

نگراں حکومت کا کام کیس کی وجہ سے رُکا ہوا ہے، فیصلہ جلد سنانا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نگراں حکومت کا کام کیس کی وجہ سے رُکا ہوا ہے اور آج سماعت مکمل نہیں ہو سکتی تاہم کوشش ہے کہ کل تک فیصلہ سنا دیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے آغاز میں خاتون درخواست گزار روسٹرم پر آگئیں اور عدالت سے کہا کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے خواتین درخواست گزاروں کو بات کرنے روکتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سنیں گے۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل کی ابتدا کی۔

رضا ربانی کے دلائل

رضا ربانی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں۔ کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا موقف سن کر۔

رضا ربانی نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے۔ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قراردیا جا سکتا ہے۔ سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے دلائل دیے کہ میں نے اپنے دلائل کی اسکیم جمع کرا دی ہے۔ اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی۔ اسپیکر کی رولنگ ماورائے آئین نہیں ہو سکتی۔

رضا ربانی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی۔ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹنگ کا عمل ضروری تھا۔ میں نے آئین کے چھ آرٹیکلز کا اس حوالے سے ریفرنس دیا ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے جاری کردہ نوٹس کے بعد ووٹنگ ضروری ہے۔ ووٹنگ آئینی کمانڈ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کیخلاف بیانیے کیلئے خط کا سہارا لیا گیا۔

رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ بیرونی سازش کو وجہ بنایا گیا۔ جان بوجھ کر تحریک عدم اعتماد کیخلاف بیانیہ بنایا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کیلئے پہلے ہی اجلاس تاخیر سے بلایا گیا۔ اکیس مارچ کو اجلاس محض دعا کرکے ملتوی کردیا گیا۔

Advertisement

پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ ماضی میں فوزیہ وہاب کی وفات کے بعد اجلاس بلایا گیا تھا۔ اجلاس کو کسی بحث کے بغیر تین اپریل تک ملتوی کیا گیا۔ تین اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی۔

رضا ربانی نے دلائل دیے کہ بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے ڈپٹی اسپیکر کا اپوزیشن اراکین کو غدار قرار دینا غلط تھا۔ ڈپٹی اسپیکر نے آئین کے تحت کارروائی نہیں بڑھائی۔ اسپیکر کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع تھی۔

رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے تو پھر تحریک عدم اعتماد غیر موئثر ہوجاتی ہے۔ بصورت دیگرکوئی اور آپشن تھا ہی نہیں۔ وزیراعظم اگراکثریت کھو رہے ہیں تو انھیں اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کا پروسیس شروع ہوتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ حتی کہ ووٹنگ کا عمل مکمل کیے بغیر اسمبلی کا اجلاس بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے دلائل میں کہا کہ وزیر قانون نے دو سو ممبران قومی اسمبلی کیخلاف آرٹیکل 5کی بات کی۔ بغیر کسی عدالتی فیصلے یا ثبوت کے الزام تراشی کی گئی۔ آرٹیکل 69 میں ایوان کی کارروائی کو اثتشناء حاصل ہوتا ہے۔ کیا ڈپٹی اسپیکر اپنے طور پر ممبران کیخلاف آرٹیکل 5 کا اطلاق کرسکتا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیے بغیر اسمبلی کی تحلیل کی ہدایت نہیں کر سکتا تھا۔ وزیراعظم کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیتے مستعفی ہوتے یا وقت سے پہلے الیکشن میں چلے جاتے۔

Advertisement

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کرسکتے تھے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد موجود تھی۔ یہ عدالت مبینہ سازشی لیٹر طلب کرے اور سیکیورٹی کونسل کی کارروائی دیکھے۔ جوڈیشل کمیشن بنا کر اس پر تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

دلائل میں رضا ربانی نے مذید کہا کہ وزیراعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی۔ تین آپشن والی بات کی اسٹبلشمنٹ نےتردید کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تاکہ کوئی فیصلہ دیا جا سکے۔

مخدوم علی خان کے دلائل

وکیل مسلم لیگ ن نے دلائل میں کہا کہ عدالت تحریک عدم اعتماد کی قراداد کو دیکھے۔ تحریک عدم اعتماد وزیر اعظم کو ہٹانے کیلئے جمع کرائی گئی۔ تحریک میں موقف اختیارکیا گیا کہ وزیراعظم اکثریت کھو چکے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ شہباز شریف نے اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ اسپیکر نے قرارداد کیلئے رائے لی تو 161 سے زائد ممبران عدم اعتماد کے حق میں کھڑے ہوئے۔

Advertisement

ن لیگ کے وکیل نے دلائل دیے کہ قرادا پیش کرنے کی اجازت ڈپٹی اسپیکر نے دی۔ 31 مارچ کو بغیر کسی کارروائی کے اجلاس تین اپریل تک ملتوی کیا گیا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ تین اپریل کو اجلاس شروع ہوا تلاوت کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے موقع بہیں دیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے فواد چوہدری کو بولنے کا موقع دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ کو التوا کیسے کیا گیا؟ اسپیکر کی جانب سے کوئی ہے؟ ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں۔ اسپیکرکاریکارڈ پیش کیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟

Advertisement

مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم اعتماد کھو جانے کے بعد وزیراعظم نہیں رہ سکتے۔ آرٹیکل 95 بضات خود واضح ہے جو مکمل پروسیس فراہم کرتا ہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ آرٹیکل 91 اور 95 میں مکمل پروسیس ہے۔ تو کیا اس میں قوائد کو تحفظ دیا گیا ہے؟

وکیل ن لیگ نے کہا کہ اگر پروسیجرمیں کوئی بے ضابطگی ہو تو بھی غیرآئینی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ ووٹنگ کا عرصہ تین سے سات دن تک کا ہے بے ضابطگی کی بنیاد پر اس عرصے کو سات دن سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 91اور 95 میں بے ضابطگی پر آرٹیکل 69 تحفظ دیتا ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین واضع ہے آئین میں لکھا ہے کہ عدم اعتماد اکثریت سے پاس ہونی چائیے۔ اگر تشریح کا معاملہ ہو تو پھر آرٹیکل 69 آڑے نہیں آتا۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے معاملے ہرعدالت فیصلہ دے چکی۔ 1999 میں بلوچستان اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دوبارہ بحال ہوئی۔

Advertisement

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کیسے کروانی ہے طریقہ کار بارے میں آئین خاموش ہے۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ عدم اعتماد کا طریقہ کار بارے رولز موجود ہیں۔ عدم کی تحریک جمع کرانےکی پہلی شرط بیس فیصد اراکین کی حمایت ہے۔

چیف جسٹس نے پوچحا نے کہ کیا وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بحث ہوئی؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس تحریک پر بحث نہیں کرائی گئی۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اکثریت پارلیمان میں موجود تھی؟ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کیلئے بیس فیصد اراکین کی شرط آئین نےعائد کی ہے۔ آئینی شق کو قوائد کے ذریعے روندا نہیں جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ قانونی تھی یا غیرقانونی۔ اصل مقدمہ اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کو جانچنا ہے۔

Advertisement

وکیل ن لیگ نے کہا کہ عدم اعتماد پر دی گئی رولنگ آئننی تقاضوں کیخلاف ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا عدم اعتماد کی تحریک میں غیر قانونی عوامل کو جانچا جا سکتا؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو عدم اعتماد کی تحریک میں موجود غیر قانونی عوامل کو بھی جانچنے کا اختیارحاصل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اختیارات کی تکون موجود ہے۔ چھوٹی موٹی خامیوں پر اسپیکر کے آئینی اختیارات کیخلاف کیسے رائے دے دیں؟ آپ چاہتے ہیں مقدمہ بازی کا نیا دروازہ کھل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر صوبائی اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں آنا شروع ہوجائیں گی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر اسپیکر سے اجازت لیے بغیراختیارات استعمال کر سکتا ہے؟ ڈپٹی اسپیکر کا اسپیکر کے اختیارات کو استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی؟

وکیل ن لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کا اسپیکر کی اجازت کے بغیراختیارات استعمال کرنا غیرآئینی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھتے وقت اسپیکر کا نام بھی لیا۔

Advertisement

سپریم کورٹ میں عالمی سازش کا تذکرہ پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی پیش کش کر دی

دوان سماعت عالمی سازش کا تذکرہ 

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ خارجی پالیسی یا ریاستی پالیسی کا تعین نہیں کرسکتی۔ سپریم کورٹ نے صرف آئین و قانون کو دیکھنا ہے۔ ہم ریاستی پالیسی کی کھوج لگانے کا کام نہیں کرسکتے۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ سپریم کورٹ سیکیورٹی اداروں کو بلا کرمکمل بریفنگ لے سکتی ہے۔ میں اپنی سیاسی جماعت کے قائدین کی طرف سے بات کہنا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ اگرچاہے توعالمی سازش بارے انٹیلجنس چیف سے ان کیمرہ بریفنگ لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فی الحال آئین و قانون کو دیکھ رہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ غیرآئینی اقدامات کو آئینی استحقاق حاصل نہیں ہوسکتا۔ عدالت میں قانونی نکات ہی اٹھاؤں گا۔ حساس ادارے کے سربراہ سے بریفننگ چیمبرمیں لی جا سکتی ہے۔

Advertisement

ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو قائم قام وزیراعظم بنانا عدالت پراثراندازہونے کی کوشش ہے۔ رولنگ کالعدم ہوئی تواسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی۔ عمران خان کو عبوری وزیراعظم بنانا بھی آئین کے مطابق نہیں۔

اعظم نذید تارڑ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا موقف بھی سنا جائے۔ خدشہ ہے کہ وزیراعلی کا الیکشن شاید کل بھی نہ ہو۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے۔

نماز کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کرتے ہوئَے چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ہم آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے کو سن رہے ہیں۔ کیا وزیراعلی کےانتخاب کیلئے کل ووٹنگ ہو رہی ہے؟

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ایم پی ایز کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

Advertisement

جسٹس مظہر عالم نے  پنجاب حکوت کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ووٹنگ کرا دیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ آپ سب کچھ ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کل دیکھیں گے۔ ایڈوکیٹ جنر ل پنجاب کیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس قانون کے مطابق ہوگا؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یقین ہے کہ پہنجاب اسمبلی کی کارروائی قانون کے مطابق چلائی جائے گی۔

نیئر بخاری کے وکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ جس قسم کے حالات بنائے گئے ہیں غیرآئینی اقدام ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر مخدوم علی خان کی دلائل اپنا رہا ہوں۔

Advertisement

مصطفی رمدے نے مخدوم علی خان کو کرس گیل قرار دیدیا

اے این پی کے وکیل نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا تے ہوئے کہا کہ مصطفی رمدے نے کہا کہ کرس گیل کے بعد مزید کھیلنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

تمام درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریکیں منظور کرسکتی ہے۔ تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ پارلیمان کیلئے بے حد احترام ہے۔ ماضی میں عدالت غیرآئینی اقدامات پر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے۔

حکومتی وکلا نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج سماعت مکمل نہیں ہو سکتی، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Advertisement

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ  نے کیس کی سماعت کی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
واپڈا کا حب کینال 48 گھنٹے بند رکھنے کا فیصلہ، شہر قائد میں پانی کی فراہمی معطل رہنے کا امکان
الجومَیع کی دیوانگی، کراچی کو یرغمال بنالیا گیا، ریاستِ پاکستان کی عزت داؤ پر
شرح سود 11 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ، مہنگائی 5.6 فیصد تک پہنچ گئی
کورنگی میں کمرے کی چھت گرنے سے ڈیڑھ سالہ بچی جاں بحق ، ایک بچی اور 2 خواتین زخمی
شمالی وزیرستان و کرم میں پاک فوج کی بڑی کارروائی، 25 خوارج ہلاک، پانچ جوان شہید
مذاکرات کے دوران دراندازی ناقابل قبول ، سیکیورٹی ذرائع کا شدید ردعمل
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر