
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو اپنی کرنسی بھی خود چھاپنے سے قاصر ہیں اور انہیں اپنی کرنسی بھی دوسرے ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہے، وہ کونسے ممالک ہیں آیئے جانتے ہیں۔
یوں تو کسی ملک کی کرنسی اس قوم کی شناخت کا ایک علامت ہوتی ہے، لیکن اس وقت براعظم افریقہ کے تمام ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر ہیں اور اس کے لیے انہیں دیگر ممالک کی خدمات لینی پڑتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈرکے مکمل ہونے میں ابھی تاخیر تھی۔
اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ گیمبیا ایک خود مختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔
البتہ گیمبیا وہ واحد ملک نہیں جو ایسا کرتا ہے بلکہ براعظم افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک سے چھپواتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک سے۔
ان میں برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی ڈی لا رو، سویڈن کی کرین اے بی اور جرمنی کی گیزیکے پلس ڈیورینٹ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔
یہ بات بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال سکتی ہے کہ تقریباً تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں البتہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔
تاہم افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ غیروں سے اپنے نوٹ چھپوانا ان کے لئے زیادہ محفوظ عمل ہے۔
واضح رہے کہ کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔
لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے، ایسا ہی کچھ سن 2018 میں ہوا جب سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔
اسی طرح نوٹ منتقل کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی رقم خرچ ہوتی ہے۔
اس کے باوجود ڈی لا رو جیسی غیر ملکی نوٹ بنانے والی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں، ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔
یاد رہے کہ ان کمپنیوں کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔
علاوہ ازیں کسی کے لئے یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ آخر یہ نوٹ کہاں چھاپتی ہیں، ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔
جبکہ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، ان کا مرحلہ بھی انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔
تاہم جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ نئے بینک نوٹوں کی طلب میں کمی نے ڈنمارک کو بھی سنہ 2014 میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔
لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے کئی نقصانات بھی ہیں، کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار بھی استعمال کر سکتی ہیں۔
جیسے کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے ڈی لا رو کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔
کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی وہیں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں جبکہ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر زیادہ اعتبار ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News