
سفارت خانے کے ریکارڈ نے مریم نواز کے بیان کو مبینہ طور پر غلط ثابت کردیا ہے، ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان نے اچانک ملک نہیں چھوڑا، بلکہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد 24 مارچ کو اسلام آباد واپس آئے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسد مجید اپنے پیشرو سفیر جہانگیر صدیقی کے 25 دسمبر 2018 کو ملازمت چھوڑنے کے فوراً بعد واشنگٹن پہنچے اور انہوں نے 11 جنوری 2019 کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اسناد پیش کیں۔
سفیر اسد خان نے 11 جنوری 2022 کو اپنی تین سالہ مدت پوری کی، لیکن نامزد سفیر سردار مسعود خان کی آمد پر وہ 24 مارچ تک واشنگٹن میں ہی رہے۔ سفیر اسد خان اب برسلز میں پاکستان کے نامزد سفیر ہیں۔
منگل کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اسد مجید خان کو نام نہاد دھمکی آمیز خط کا مرکزی کردار قرار دیا تھا، جس میں بائیڈن انتظامیہ کو پی ٹی آئی حکومت گرانے کے اقدام کی پشت پناہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
مریم نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ خط ایک ڈرامہ تھا جس کی وجہ سے سفیر اسد مجید کو راتوں رات برسلز منتقل کر دیا گیا تھا۔
مریم نے انہیں نام نہاد ‘تھریٹ لیٹر’ تنازعے کا مرکزی کردار قرار دیا تھا۔
لیکن ڈان ڈاٹ کام نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستانی سفارت خانے میں رکھے گئے ریکارڈ اور میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ “سفیر اسد مجید خان کی آمد یا روانگی سے متلعق کوئی بھی فیصلہ اچانک نہیں ہوا۔”
واشنگٹن، برسلز اور ریاض میں سفارتی تبدیلیوں کی خبریں پہلی بار پاکستانی میڈیا میں گزشتہ سال اکتوبر میں سامنے آئی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے 27ویں صدر مسعود خان ملک کے نئے ایلچی کے طور پر واشنگٹن جا رہے ہیں۔
رپورٹس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ سفیر اسد خان کی جگہ لیں گے جو یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ میں نئے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے برسلز جا رہے ہیں۔
4 نومبر 2021 کو، واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق کی کہ اسے سفیر مسعود خان کے لیے کاغذات نامزدگی موصول ہوئے ہیں۔ سفارت خانے نے مسعود خان کا معاہدہ اسی ماہ کے آخر میں محکمہ خارجہ کو جمع کرایا۔
فروری میں، بائیڈن انتظامیہ نے مسعود خان کے کاغذات کی منظوری دی، جس سے ان کی واشنگٹن آمد کا عمل شروع ہوا۔
عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے منظوری میں معمول سے زیادہ وقت لگا جس نے ریاست ہائے متحدہ (امریکا) میں پوری انتظامی مشینری کو متاثر کیا تھا۔
تاہم تاخیر نے امریکا میں بھارتی لابی کو مسعود خان کے کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف توہین آمیز مہم شروع کرنے کا موقع فراہم کیا اور سفیر اسد مجید خان نے اپنے سینئر کے خلاف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اسد خان اگرچہ گریڈ 22 کے کیریئر ڈپلومیٹ ہیں لیکن مسعود خان سے جونیئر ہیں جو اقوام متحدہ اور چین میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد سروس سے ریٹائر ہوئے تھے۔
ان کی روانگی کی شام امریکی کانگریس میں پاکستان کاکس کی چیئر وومن کانگریس وومن شیلا جیکسن لی نے انہیں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں پر کانگریس کے اعتراف کا سرٹیفیکیٹ پیش کیا۔
سفیر اسد خان نے اپنے کام کو تسلیم کرنے پر کانگریس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، “میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا مستقبل پاکستان اور امریکا کی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے اور مشترکہ مقاصد کے لیے مل کر کام کرنے میں مضمر ہے۔”
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News