Advertisement
Advertisement
Advertisement

عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے، سپریم کورٹ

Now Reading:

عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغازمیں تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس پاکستان نے انھیں کہا کہ علی ظفر صاحب اگر اپ نے دس منٹ میں مکمل نہ کیا تو پھرمخدوم علی خان کو سنیں گے۔

وکیل تحریک انصف نے کہا کہ میں دس منٹ میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا جس کے بعد انھوں نے دلائل میں کہا کہ تریسٹھ اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا۔ تریسٹھ اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے۔

بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ تریسٹھ اے کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ ووٹ کاسٹ تو ضرورہوگا لیکن اس کو گنا نہیں جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کے کردار اور اہمیت پرعدالتی فیصلے موجود ہیں۔ آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز ممبر اسمبلی بنتے ہیں۔

Advertisement

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ 63 اے سیاسی جماعتوں کے ممبرسے متعلق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ علی ظفر آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں عدالتی تشریح کے ذریعے استدعا کررہا ہوں۔

’انحراف کا فیصلہ پارٹی سربراہ نے کرنا ہے‘

جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ انحراف کا فیصلہ پارٹی سربراہ نے کرنا ہے۔ اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹ شمار کرنا اورانحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پربھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

Advertisement

علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا۔ پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گاْ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا۔ ووٹ نہ ڈالنے کی کوئی قدغن لگائی نہیں گئی۔ تریسٹھ اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر ممبر رکن اسمبلی نے فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ کرنا ہے یا نہیں۔ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا۔

جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کوبتاسکتا ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا جواب لے گا۔ نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمین ہو کر شوکاز ختم بھی کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں پارلیمانی پارٹی کی ہدایت اکثریت کی ہوتی ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہوگی۔

Advertisement

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گئے ارٹیکل 96 کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔ رضا ربانی اور فاروق نائیک کا کہنا ہے پارٹی سربراہ ان کے بے پناہ اختیارات کو روکنے کے لیے سزا واضح نہیں۔

’سیاسی جماعت اس کینسرکا علاج خود نہیں کرسکتی‘

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیصلہ سربراہ کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔ پارلیمانی پارٹی میں فیصلہ سازی کا کیا طریقہ کارہوتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ سیاسی پارلیمانی جماعت کا آئین ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اکثریت فیصلہ کرتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسرکا علاج خود نہیں کرسکتی۔ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں۔ ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے مؤقف کے خلاف ہیں۔ آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گیے۔

عدالت نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔

Advertisement

وکیل علی ظفر نے کہا کہ تشریح کا حق عدالت کے پاس ہے۔ سمجھ سکتا ہوں کہ عدالت تشریح سے آگے نہیں جانا چاہتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بڑا واضح ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔ آئین میں تریسٹھ اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔

بیرسٹرعلی ظفرکو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سےوکیل اظہر صدیق پیش ہوئے اوروکیل علی ظفرکے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوارہے۔

ق لیگ کے وکیل نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا۔ عملی طورپرجو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کیخلاف ہے۔

Advertisement

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ آج ایک گھنٹے میں دلائل مکمل نہیں کرسکوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگلے دوہفتے بنچ دستیاب نہیں ہوگا۔ چاہتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے پرجلد ازجلد اپنی رائے دیں۔

مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ 14 مئی کو بیرون ملک سے میری واپسی ہوگی۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ اپنے دلائل کا خلاصہ بیان کردیں پھردیکھیں گے۔

’سپریم کورٹ پوچھے گئے سوال تک محدود ہے‘

مخدوم علی خان نے کہا کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔ منحرف رکن اسمبلی کی مدت تک ہی نااہل ہوسکتا۔

Advertisement

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوال تک ہی محدود رہ سکتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوال سے ہٹ کر بھی رائے دے سکتی ہے۔

وکیل ن لیگ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوال تک محدود ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ  آئین کی تشریح کا عدالتی اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں پارلیمنٹ عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ عدالت نے کبھی اپنے اختیارات پرسمجھوتہ نہیں کیا۔

وکیل ن لیگ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان نے آرٹیکل تریسٹھ اے کے حوالے سے ائینی درخواست بھی دائر کی ہے۔ آئینی درخواست میں کوئی سیاسی جماعت یا منحرف رکن فریق نہیں۔ آئینی درخواست میں صرف منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی مانگی گئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی درخواست میں بھی اٹھایا گیا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمارنہ کیا جائے۔ آئینی درخواست میں ووٹ شمار نہ کرنے کی استدعا نہیں کی گئی۔

Advertisement

ن لیگ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا۔ عدالت نے اسمبلی بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں۔ دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلہ خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو بغیر مزاحمت کے عمل ہونا چاہیے۔ عدالت کے سامنے اب کوئی مواد نہیں کہ اراکین کیوں منحرف ہوئے۔ رشوت لینے کے شواہد ہیں نہ ہی یہ معلوم کہ ضمیر کی آوازپرمنحرف ہوئے۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ رکن کیوں منحرف ہوا یہ شواہد دینا اس کا کام نہیں۔ بعض آئینی ترامیم پر وکلا اورعوام نے احتجاج کیا۔ ساتویں ترمیم میں سول اداروں کی مدد کے لیے فوج طلب کرنے کی منظوری ہوئی۔ سول اداروں کی مدد کے لیے آئی فوج کے اقدامات کو عدالتی دائرہ اختیارسے باہررکھا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا عدالت صرف سوال کی حد تک آئین کی تشریح کر سکتی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت سے رائے مانگی گئی ہے۔ عدالت اپنا اختیار 184/3 میں استعمال کر سکتی ہے۔ ارٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سے بے وفائی روکنے کے لیے نہیں ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے۔ جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں۔ کیا عدالت سوالے الفاظ کی قیدی ہے یا اس سے ہٹ کر تشریح کرسکتی ہے۔

عدالتِ عظمٰی نے کہا کہ ملک کو میچورجمہوریت کی طرف لے کر جانا ہوگا۔ مچورجمہورہت کے لیے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پارٹی سے وفا داری ریاست سے وفاداری سے ہٹ کرہوتی ہے۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
چمن بارڈر پر بابِ دوستی مکمل طور پر سلامت، افغان طالبان کا جھوٹا دعویٰ بے نقاب
وزیراعظم شہبازشریف سے بلاول کی قیادت میں پی پی کے وفد کی اہم ملاقات
تصادم نہیں، تعاون وقت کی ضرورت ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا کا اسلام آباد سمپوزیم سے خطاب
کراچی، 48 انچ قطر لائن کی مرمت کا کام مکمل، متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی بحال
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کتنا اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک نے بتا دیا
پاکستان کا پہلا اے آئی لرننگ پلیٹ فارم ’’ ہوپ ٹو اسکلز ڈاٹ کام ‘‘ لانچ کردیا گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر