سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو تحریک انصاف کی پانچ تجاویز پر وزیراعظم سے ہدایت لینے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وکیل تحریک انصاف نے تجاویز سامنے رکھتے ہوئےعدالت سے کہا کہ چادراور چار دیواری کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اگر کسی پر فوجداری مقدمہ درج ہے تو اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ وکلاء کو ہراساں نہ کیا جائے، ان کے دفاترمیں چھاپے نہ مارے جائیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ کنٹینرز ہٹانے اور شیلنگ و لاٹھی چارج سے بھی روکا جائے۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ میں نے وزیراعظم شہبازشریف سے بات کی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم جمہوری اقدار کو برقراررکھیں گے۔ مذاکرات کیلئے وزیراعظم نے وزرا پرمشتمل وفد تشکیل دینے کا کہا ہے۔
اشتراوصاف نے عدالت کو بتایا کہ ہم دنوں اطراف کے مابین الفاظ کے چناؤ سمیت ہر معاملے پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ چاہتے ہیں معاملہ عدالت سے باہر طے ہو۔ دو دن پہلے بھی میں نے ایک کوشش کی۔
اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ عدالت میں نہیں بتانا چاہتا کس سے بات ہوئی۔ مانتا ہوں کہ دونوں جانب رابطوں کا فقدان ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تحریک انصاف بیانِ حلفی دے رہی ہے وہ پر امن رہیں گے۔ لاہورمیدان جنگ بنا ہوا ہے۔
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی کارکنان سے لاہور میں اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ اسلحہ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر برآمد کیا گیا۔
جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ کیا آپ کو پتہ ہے پاکستان میں کتنا اسلحہ ہے؟ ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ سیاست دانوں کے مسائل کا حل پارلیمنٹ ہے۔ پی ٹی آئی والوں سے کہیں پارلیمنٹ میں واپس آجائیں جس پرعدالت نے کہا کہ یہ سیاسی بات ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک انصاف والوں سے پوچھیں پرامن طور پر واپس کب جائیں گے۔
بابراعوان ایڈووکیت نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلے ہوتے ہیں۔ ہمارا نئے انتخابات کا مطالبہ ہے۔
جسٹس اعجازاالاحسن نے کہا کہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے کہ سیاسی لڑائی میں بنیادی انسانی حقوق پامال ہوں۔ آئی جی اسلام آباد کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ آپ عوام کے نوکر ہیں، عوام سے وفادار رہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ موجودہ صورتحال سپروائزکریں گے۔ بغیر کسی چارج کے گرفتار کرنا غیرآئینی ہے۔ ایم پی او کے تحت گرفتاریوں پرحکم جاری کریں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سارے شہری محب وطن اور اہم ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کوئی آپس میں شائستگی سے بات نہیں کررہا۔ سپریم کورٹ ثالث ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے کچھ بھی کریں مگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نا کریں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ مسئلہ صرف جماعتوں کے آپس میں بات چیت کے فقدان اورعدم اعتماد کا ہے۔ جماعتوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ ثالث کا کردارادا کر رہی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ کو ان افراد کے کیسز کا انفرادی طور پر فیصلہ کرنے کاحکم دیں گے جن کوکرمنل چارجز لگا کرگرفتارکیا گیا ہے۔ جہاں معاملات نمٹانے ہوں وہاں دل بڑا اور صبر کرنا پڑتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جو تحفظ پی ٹی آئی کو درکارہے وہ ہم دیں گے۔ جو لوگ ٹی وی اور یوٹیوب دیکھ رہے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ خدانخوستہ ملک میں پتا نہیں کیا ہوگیا ہے۔ انشااللہ سب معمول پرآئے گا۔
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم پر طلب کر لیا اور مکالمے میں کہا کہ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پرآپ کیا کہیں گے؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ لاہورمیں ہلکی سی سول جنگ جاری ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہلکی سی نہیں لاہورمیں مکمل سول جنگ ہو رہی ہے۔ کیا پولیس کا کام لاٹھی چارج کرنا اور گاڑیاں توڑنا ہے؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ یہ سول جنگ دونوں جانب سے ہے۔ مظاہرین کے پاس اسلحہ ہونے کی اطلاع ہے جس پر جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ ایسی بات نا کریں۔ کس نے کہہ دیا ہے کہ اسلحہ ہے لوگوں کے پاس؟ کس کے گھر میں اسلحہ موجود نہیں ہوتا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت گرفتاریاں اورریڈزناقابلِ قبول ہیں۔ ایک میدان میں جا کر بیٹھیں۔ ایسا نہیں ہوگا کہ فیض آباد بلاک کر دیا۔
عدالت نے بابراعوان سے پوچھا کہ آپ پوچھ کربتائیں احتجاج کب تک رہے گا؟ یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کردی جائے۔ کوئی فوڈ چین نہیں ٹوٹے گی۔ عدالت جو فیصلہ کریگی اس پرعمل کرائیں گے اور بیان حلفی لیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سینیٹرکامران مرتضی نےکچھ عرصہ قبل احتجاج سےمتعلق جووعدہ عدالت سے کیا وہ پورا کیا۔
وکیل بابراعوان نے جواب دیا کہ ہم بھی ایسا ہی کرینگے۔ ہمارا نئے الیکشن کا مطالبہ ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عامرکیانی، فیصل چوہدری،علی نوازاعوان اور مجھے عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کیلئے نامزد کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی وزرا ٹیم تشکیل دینے کا کہا ہے۔
حکومت سے ہدایت لے کر حکومت کی مذاکراتی ٹیم بارے آگاہ کروں گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جومعاملات طے پائیں گے ان پرعدالت عملدرآمد کرائے گی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
