لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز اب وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے ہیں تاہم اس عہدے کے لئے دوبارہ گنتی کی جائے گی۔
عدالتی حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے دوبارہ رائے شماری میں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی ، وزیراعلیٰ بھی اسی جماعت کا حمایت یافتہ ہوگا اور اگر کسی کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو آرٹیکل 130 چار کے تحت سیکنڈ پول ہوگا۔
عدالت کی جانب سے حکم نامے میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر قائم نہیں رہیں گے، ووٹ نکالنے کے بعد اکثریت نہ ملنے پر حمزہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر قائم نہیں رہیں گے تاہم حمزہ شہباز اور انکی کابینہ کے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں کو قانونی تحفظ ہو گا۔
نمبر گیم
16 اپریل کو حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بننے کے لئے 371 کے ایوان میں 197 ووٹ ملے۔ جس کے بعد ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 ارکان اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے۔ 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے پر پنجاب اسمبلی ممبران کی تعداد 346 رہ گئی ہے۔
اس وقت پنجاب کے ایوان میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی کل تعداد 165 تھی جن میں سے ایک منحرف رکن فیصل نیازی نے اپنا استعفیٰ اسپیکر پنجاب اسمبلی کو پیش کر رکھا ہے تاہم انہوں نے اب تک وہ استعفیٰ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 7، آزاد ارکان 4 اور راہ حق پارٹی کے ایک رکن کو شمار کرکے موجودہ حکومتی اتحاد کے کل ارکان کی تعداد 176 ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی کل تعداد 183 تھی جن میں سے 25 منحرف اراکین کو الیکشن کمیشن نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر ڈی سیٹ کردیا اور یوں پی ٹی آئی کے باقی اراکین کی تعداد 158 ہے۔
اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی تعداد 10 اور یوں اپوزیشن اتحاد کے اراکین کی کل تعداد 168 بنتی ہے جب کہ عدالتی حکم پر 5 مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو ملنے کے بعد یہ تعداد 173 ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی اراکین کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
اس کے علاوہ ایک آزاد رکن چوہدری نثار نے ابھی تک حکومتی واپوزیشن اتحاد میں سے کسی کی حمایت کا فیصلہ یا اعلان نہیں کیا۔
چوہدری نثار کی خاموشی اور فیصل نیازی کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد ان دونوں اراکین کو کسی اتحاد میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا ہے، یوں اس وقت پنجاب اسمبلی کے ایوان کو 369 اراکین پر مشتمل سمجھا جا سکتا ہے۔
حکومت سازی کے لیے 186 ارکان کی سادہ اکثریت ضروری ہے جب کہ ایوان میں کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت نہیں ہے۔ دوسری گنتی میں جس کے پاس ایوان میں موجود ممبران کی تعداد زیادہ ہوگی وہ قائد ایوان منتخب ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 130 سب کلاس 4 کے مطابق اگر دو امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی مطلوبہ ہدف پورا نہ کرسکا تو ری پول ہوگا۔ ری پول کے نتیجے میں زیادہ اکثریت والا قائد ایوان منتخب ہوگا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
