
خلا میں تباہ ہونے والا چینی راکٹ لانگ مارچ B-5 کا ملبہ بحرہند اوربحرالکاہل کے مقام پرگرگیا ہے۔
چینی خلائی ایجنسی کے مطابق لانگ مارچ B-5 کی زیادہ ترباقیات کرہ زمین تک پہچنے سے قبل ہی جل کرختم ہوگئیں تھی۔
اس سے قبل خلائی ماہرین نے کہا تھا کہ راکٹ کا ملبہ زمین کے گنجان آباد حصے پرگرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
امریکی اورچینی حکام کا کہنا ہے کہ چینی راکٹ کا ملبہ بحیرہ ہند اوربحرالکاہل میں گرا ہے۔
چینی راکٹ کے ابتدائی مرحلے میں بے قابوہونے اوراس کی واپسی نے ایک بارپھر خلائی کچرے کے بارے میں تحفظات پیدا کردیے ہیں۔
اس سے قبل بھی چین کا ایک راکٹ خلا میں بے قابوہوگیا تھا، تاہم، خوش قسمتی سے زمین پرگرنے کے سبب کسی قسم کا کوئی جانی نْقصان سامنے نہیں آیا۔ جس کے بعد خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے چینی خلائی ایجنسی سے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق راکٹوں کواس طرح ڈیزائن کرنے کے لیے کہا گیا تھا کہ زمین کے مدارمیں دوبارہ واپسی پرچھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جائیں۔
امریکی اسپیس کمانڈ کی ٹوئٹ کے مطابق چینی راکٹ لانگ مارچ B-5 ماؤنٹین ڈے ٹائم کے مطابق صبح پونے 11 بجے بحیرہ ہند کے اوپرسے دوبارہ زمین میں داخل ہوا۔
دریں اثنا، چین کی خلائی ایجنسی نے 119 ڈگری مشرقی طول بلد اور9.1 ڈگری شمالی عرض البلد کے طورپردوبارہ داخلے کے اشارے دیے جہاں یحیرہ سولوکا مشرقی حصہ شمالی بحرالکاہل میں فلپائنی جزیرے پلاوا سے ملتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کے نامکمل خلائی اسٹیشن کی طرف جانے والا حالیہ راکٹ، جسے تیان گونگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں زمین پردوبارہ واپسی پرقابومیں رہنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔
اس راکٹ کوگزشتہ اتوارتیان گونگ اسٹیشن سے لانچ کیا گیا تھا۔ چینی حکومت نے بدھ کے روزکہا تھا کہ راکٹ کے دوبارہ زمین کی حدود میں داخل ہونے سے زمین پر موجود کسی شے کوبہت کم خطرہ لاحق ہو گا کیونکہ یہ ممکنہ طورپرسمندرمیں گرے گا۔
تاہم، راکٹ کے ٹکڑوں کے آبادی والے علاقے پرگرنے کا امکان تھا، جیسا کہ مئی 2020 میں گرنے والے بے قابو چینی راکٹ نے کیا تھااور اس سے آئیوری کوسٹ میں املاک کو نقصان پہنچا تھا۔
خلائی ماہرین کے مطابق تباہ ہونے سے قبل راکٹ کا خالی حصہ زمین کے گرد بیضوی مدارمیں تھا جہاں اسے دوبارہ داخلے کے لیے بے قابو طریقے سے گھسیٹا جا رہا تھا۔
واضح رہے کہ سیٹلائٹ آپریٹرزکے لیے کرہ زمین پردوبارہ داخل ہونے والی اشیاء کومنتشر کرنے کے لیے ڈیزائن کرنا ایک ترجیح بنتا جا رہا ہے۔
یہ جزوی طورپرایسے مواد کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے جس میں ایلمونییم جیسے کم نقطئہ پگھلاؤوالی دھات ہوتی ہے۔
لیکن، راکٹ کے معاملے میں، یہ مہنگا ہو سکتا ہے، کیونکہ راکٹ میں ایندھن کے لیے استعمال ہونے والے مواد، جیسے ٹائٹینیم، کو جلنے کے لیے بہت زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسی اشیاء میں ان کی جسامت بھی بہت معنی رکھتی ہے خاص طورپرلانگ مارچ 5 کے معاملے میں، جس کا وزن 25 ٹن سے زیادہ تھا۔
واضح رہے کہ خلائی ماہرین خلا میں موجود انسانوں کے پیدا کردہ کچرے کی وجہ سے ممکنہ تصادم سے لاحق خطرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے متعدد بارخلائی مشنزسرانجام دینے والی حکومتوں نے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس کے بارے میں معلومات شیئر کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق زمین کے مدار میں اس وقت 30 ہزارسیٹلائٹس اوردیگرخلائی کچرہ موجود ہے۔
خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خلائی مشن کرنے والے ممالک کو چاہیے کہ وہ خلا میں کسی تصادم کو روکنے کے لیے مدار میں موجود خلائی کچرے کو صاف کریں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News