
یہ ایک تجربہ گاہ کا منظر ہے، جہاں ایک درجن چھوٹی، کریمی گیندیں ایک شفاف گلابی مائع کی ڈش میں لٹکی ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ سے دیکھنے پریہ بظاہرباریک قطرے نظرآتے ہیں، لیکن ایک طاقت ورخوردبین سے دیکھا جائے تو ان کی اندرونی ساخت میں سرخ ، نیلے اورسبزرنگ کی تہوں میں چھپی پیچیدگیاں ظاہرہوتی ہیں۔
سائنس جریدے نیوسائنٹسٹ میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ کیمبرج یونیورسٹی کی میڈیکل ریسرچ کونسل کے شعبہ برائے بایولوجی ڈیویژن کی سربراہ ڈاکٹر میڈلین لنکاسٹراوران کی ٹیم کی جانب سے لیباریٹری میں پیدا کیے گئے انسانی دماغ کے خلیات ہیں جوکہ چمکتی ہوئی برقی قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ درحقیقت وہ خلیات ہیں جوانسانوں کوسوچنے سمجھے کی تحریک دیتے ہیں۔ اوردماغی خلیات کے اس حیرت انگیز مجموعے کو انسانی تاریخ میں پہلی بارلیب میں بنایا گیا ہے۔ سائنس داں انسانی دماغ کی پیچیدہ گتھیوں کوسلجھانے کے لیے اس پراسرارعضو کے خلیات کو لیباریٹری میں ’پیدا ‘ کررہے ہیں۔
لیباریٹری میں اگائے جانے والے دماغی خلیات کے قطرے، جنہیں برین آرگنائیڈز یا ’منی دماغ‘ کہا جاتا ہے، سے محقیقن اعصابی نشوونما اور دماغی بیماریوں کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں اوران کا مقصد اسے حقیقت سے قریب تربنانا ہے۔
خلیات کے اس ڈھانچے کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اسے برین آرگینوئیڈزاوربعض اوقات ’ منی برین ‘ کے نام سے بھی جانا جاتاہے، اس میں انسانی دماغ کے متعلق اہم معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔
ہمیں اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ انسانی جسم کا یہ سب سے پُراسرارعضو کس طرح اپنے افعال سرانجام دیتا ہے، آٹزم کا شکار لوگوں میں یہ کیسا برتاؤ کرتا ہے، ڈیمینشیا اورموٹرنیورون ڈس آرڈرمیں اس کی صورت حال کیا ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ اس سے ہمیں پریمیٹوآئیز( 541 ملین سال پہلے ظاہر ہونے والی پہلی آنکھیں) کے ارتقا کے بارے میں جاننے میں بھی مدد مل سکے گی۔
میڈلین لنکاسٹرکے ریسرچرزکا کہنا ہے کہ اگر ہم دماغ کے ان پیچیدہ افعال کو سمجھنے میں کام یاب ہوگئے توپھریہ یقیناً طبی میدان خصوصاً دماغی صحت کے شعبے میں ایک انقلاب ہوگا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News