Advertisement
Advertisement
Advertisement

ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس؛ سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی

Now Reading:

ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس؛ سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی
سپریم کورٹ

پنجاب، کے پی انتخابات کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرنے کا حکم

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو فل کورٹ بنا دیں گے تاہم فی الوقت استدعا مسترد کی جاتی ہے۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف سماعت کی ۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے سابق صدور عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کافی صدور یہاں موجود ہیں۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے سوال ہے کہ چوہدری شجاعت کا خط کب ملا اور کب اسمبلی میں پڑھ کر سنایا گیا۔ جس پر پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ خط ووٹنگ کے بعد رولنگ کے دوران ڈپٹی اسپیکر نے پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ووٹنگ کے بعد کیسے خط ملا ، اس وقت تو پنجاب اسمبلی کے دروازے ہی بند تھے جس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا، ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط ان کی جیب میں تھا۔ پی ٹی آئی وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا۔

Advertisement

بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ بنانے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشاورت کے بعد واپس آئیں گے اور فیصلہ دیں گے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاے یایہی بنچ کیس سنے۔ کیس کی سماعت ساڑھے 5 بجے تک ملتوی کردی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے چوہدری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے وکلاء کے دلائل بھی سنے۔

تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیا اور پھر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی گھنٹے تمام فریقین کو سنا، فریقین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے، سوال یہ تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی ہے یا نہیں، سوال تھا کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں جب کہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے رولنگ میں پارٹی ہیڈ کے خط کو بنیاد بنایا، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر دلائل دیے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کل دلائل دیں۔

عدالت کا سیاسی بحران اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار 

Advertisement

سپریم کورٹ نے پچھلے 4 ماہ سے جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کیس کو زیادہ دنوں تک التواء میں رکھنے سے انکار کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی حکومت سامنے آئی، ہم چاہتے ہیں پارلیمان مضبوط ہو، ایوان میں مضبوط اپوزیشن ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں جاری بحران میں اضافہ ہورہا ہے، کیا آپ بحران میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ، آپ چاہتے ہیں ستمبر میں فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ بنانے کی صورت میں ملکی بحران میں اصافہ ہوگا،  سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہو یا غلط لیکن فیصلہ بائنڈنگ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت عوامی مفاد اور آئینی معاملات کو مزید التواء کا شکار نہیں کرے گی،  ملک میں جاری معاشی بحران پر اس عدالت کو خدشات ہیں، کیا اس عدالت کی وجہ سے ملک میں بحران اور انتشار پیدا ہوا۔

سپریم کورٹ نے ملکی معاشی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں،  کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے۔

حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے

Advertisement

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس کو کم ووٹ ملے وہ اس وقت وزیر اعلیٰ ہے، عدالت نے پھر بھی وزیر اعلیٰ کو عہدے سے نہیں ہٹایا، ہم یہ معاملہ مزید نہیں لٹکا سکتے،  عدالت اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کا استعمال کر رہی ہے، کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن عدالت کسی پریشر میں نہیں آئے گی،  آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے،  حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیا ، ہم نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی کو وزارت اعلی نے نہیں ہٹایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی کے الیکشن سے پہلے بھی فریقین کو بلا کر متفق کیا تھا،  حمزہ شہباز کو ضمنی الیکشن تک بطور وزیراعلی  برقرار رکھا تھا،  حمزہ شہباز نے پرامن اور بہترین ضمنی الیکشن میں کردار ادا کیا،  اب وزیراعلی کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لئے وزیراعلی ہے ،  ایسے وزیراعلی کو جاری رکھنے کیلئے ٹھوس قانون وجوہات چاہئے ،  ہم یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوے بھی موجود وزیراعلی کو کام سے نہیں روکا تھا ، الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے ، اپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے۔

چوہدری شجاعت اور پیپلزپارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور 

بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ بینچ بنانے سے متعلق محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی جاتی ہے ، اگر ضرورت پڑی تو فل کورٹ بنادیں گے ، ابھی یہی تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا۔

Advertisement

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت اور پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظورکردی۔ سپریم کورٹ نے دباو میں آنے اور بلیک میل ہونے سے دو ٹوک انکار کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنانے سے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آج یہ فیصلہ ہوگا یا نہیں، فل کورٹ بنانے کیلئے مزید قانونی وضاحت اور معلومات کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے روسٹرم پر آکر سیاسی تقریر شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ 12 کروڑ کے وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجنا سنجیدہ معاملہ ہے جس پر  چیف جسٹس نے وزیر قانون سے مقالمہ کیا کہ آپ کا ہر لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے آپ کو احتیاط سے کام لینا چاہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے پانچ ججز کے ساتھ وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے، اس وقت تو آپ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، ہم ضمیر اور آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے،  عدالت نے وکلاء کے تمام دلائل کا جائزہ لیا ، ہمیں ڈکٹیشن مت دیں، روسٹرم چھوڑ دیں اور بیٹھ جائیے۔

حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلا کا دلائل دینے سے انکار

حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلاء نے میرٹ پر دلائل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہدایات لیے بغیر دلائل نہیں دے سکتے کیوں کہ ہم نے فل کورٹ سے متعلق دلائل لینے کی ہدایت دی گئی تھی، مزید دلائل دینے کے لیے ہدایت لینے کے لیے وقت چاہیے۔

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالت سے فوری خریداری چاہتے ہیں جس پر وزیر قانون نے جواب دیا کہ مسل لیگ ق سمیت دیگر فریقین نے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی اہم سوال آیا تو ہم فل کورٹ بنچ تشکیل دیں گے،  اکیسویں آئینی ترمیم، این آر او کیس میں آئینی سوال تھا،  ہم دیکھنا چاہتے ہیں اگر کوئی آئینی سوال آیا تو فل کورٹ بنچ تشکیل دیں گے، آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ میں نے استدعا کی ہے کہ فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہوگا، نظرثانی کیس ابھی دلائل نہیں ہوئے، بارہ کروڑ کا صوبہ ہے، سنجیدہ معاملہ ہے۔

پانچ ججوں نے ہی وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا، چیف جسٹس 

چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ ججوں نے وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا جس پر وزیر قانون نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معذرت نہ کریں، آپ نے تو مٹھائیاں بانٹی تھیں،  ہم نے آئین کو دیکھنا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ کیس میں نہیں پیش ہونا نہ ہوں، اگر موجودہ حکومت سپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کر رہی تو یہ بہت سنگین ہے۔

دپٹی اسپیکر کے وکیل نے ججز پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی غیر جانبداری پر سوال نہیں اٹھارہے لیکن اس بنچ سے متعلق تاثر درست نہیں ، آپ عوامی رائے کو دیکھ لیں تو عدالت کو ادارک ہوجائے گا،  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس دس ججوں نے سنا، یہاں ایک صوبے کا معاملہ ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا نیوٹرلرلیٹی پر سوال ہے۔

Advertisement

عرفان قادر نے کہا کہ یہ تاثر ہے کہ ایک ہی بنچ میں کیسز چلتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی حاضری بارے میری رائے پہ تھوڑی ناراضگی نظر آئی،  ایک بینچ اہم کیسز سنے گا تو سوالات اٹھیں ہیں، عدالتوں کے جانبدار ہونے کا شائبہ بھی آئے تو جج بینچ سے الگ ہوجاتا ہے ، ابھی تک اس کیس کے قانونی نکات کا جایزہ لے رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت اسی لیے رکھی کہ تیاری کر لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سنجیدہ معاملات میں فل کورٹ بنایا جاتا ہے، یہ کیس تو سیدھا ہے، ایک سوال ہے،  سوال یہ ہے کہ پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں، دیکھنا ہے ہمارے فیصلے میں اگر کوئی تضاد ہے کہ فل کورٹ بنائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قاسم سوری کی رولنگ پر از خود نوٹس میں دن اور شام کو کیس سن کر چار دن میں فیصلہ کیا، اٹھائے گیے سوالات اور آئینی و قانونی نکات پر فل کورٹ بنایا جاتا ہے ، لیکن اس معاملے میں ہمیں فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں لگ رہا، اس کیس کو مزید طویل دینے کی ضرورت نہیں، یہاں پر تو گورننس کا مسئلہ ہے اور اس کیس میں ازخود نوٹس نہیں لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظر میں اسپیکر صاحب نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی جس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر عدالت کہہ دے منحرف اراکین کا ووٹ شمار ہوگا تو پھر معاملہ خراب ہو جائے گا،  سیاست دانوں کیساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے فیصلوں میں متحد ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہا،  آئین کی بالادستی ہونی چاہیے، اس کیس کو جلدی بازی میں نہ سنا جائے۔

پیپلزپارٹی کے وکیل کی استدعا مسترد

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت عدالت میں تلخ کلامی بڑھ رہی ہے،  عدالت کیس کی سماعت ملتوی کرے تاکہ تلخی کا ماحول کم ہواور مجھے دلائل دینے کیلئے تھوڑا وقت دیا جائے۔

Advertisement

عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا حقائق نہیں صرف بیانیہ سنتا ہے، ہم نے اس کیس میں تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیا،  یہ عدالت زیر التوا مقدمات نمٹانے کیلئے دن رات کام کر رہی ہے، اس کیس میں ہیڈ آف پارٹی کی ڈائریکشن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف ایک نقطہ دیکھنا ہے کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اوور رول کر سکتا ہے یا نہیں، پارلیمانی پارٹی عام عوام کی اسمبلی میں نمائندگی کرتی ہے ، 18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو اختیارات دیے، ںورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا ، ہم نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے، افراد کو نہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کا مسئلہ عدالت میں آسکتا ہے یا نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ پارلیمنٹ غیر آئینی کام کرے گی تو معاملات عدالت میں آئیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمان کے مسئلے عدالتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ جب پارلیمان میں آئین شکنی ہوگی یا غیر قانونی اقدام ہوگا تو معاملہ سپریم کورٹ میں آئے گا۔

وزیر اعلیٰ کا عہدہ خطرے میں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ڈپٹی اسپیکر کے لیے آرٹیکل 69 کا استثناء مانگ لیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کا انتظامی معاملات میں استثنیٰ حاصل ہے۔

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کا اختیار نہیں، ہم نے پینڈورا باکس نہیں کھولنا صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ دیکھنی ہے۔

فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اگر اسمبلی کی اندرونی کاروائی میں آتا ہے تو عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے وقت تو یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت کسی نے سپریم کورٹ کاروائی چیلنج نہیں کی ہوگی، وقت کے ساتھ حالات، قوانین میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ کا عہدہ خطرے میں ہے اور ڈپٹی اسپیکر کو عدالت کے فیصلے کی تشریح کرنے کا اختیار نہیں ہے ، ہم صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

حکومت کی قانونی ٹیم عدالت کو جواب دینے میں ناکام 

عدالت نے آج کی سماعت کے دوران 19ویں بار ایک ہی سوال پوچھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ ڈائریکشن دے سکتا ہے؟ لیکن حکومت کی قانونی ٹیم کا چوتھا وکیل بھی عدالت کو مطمئن کرنے اور جواب دینے میں ناکام رہا۔

بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین کے وکیل صلاح الدین احمد بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے دفاع میں ناکام رہے اور انہوں نے عدالت سے مزید تیاری کے لیے وقت مانگ لیا۔

Advertisement

سابق صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل 

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آ گئے اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحران سے گریز کیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنے ، ہم صرف عدالت کی رہنمائی کرنے ائے ہیں، سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف بار نے نظرثانی درخواست بھی دائر کی ہے۔

جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ہمارے فیصلے سے جڑا ہے، ہم تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں، یکطرفہ طور پر کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتے ، یہ کیس ہمارے 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے۔

لطیف آفریدی نے کہا کہ ‏ہم یہ دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں صورتحال میں بہتری آئے، ‏پارلیمنٹ اور عدلیہ ملکی نظام کا حصہ ہیں، ‏ہماری درخواست ہے کہ فل کورٹ بناکر سماعت کی جائے۔

دباؤ میں آکر فیصلہ نہیں کرسکے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ سب کا بہت احترام ہے، آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آفریدی صاحب، یہ کیس ہماری آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے، ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی صدر کا کردار محدود ہے، اوریجینل آرٹیکل 63 میں پارلیمانی لیڈر کا زکر ہے، ترمیم کے بعد پارلیمانی پارٹی کو فیصلوں کا اختیار دیا ہے، آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نقطہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، اپ کے مطابق پارلیمانی پارٹی پارٹی صدر کے ماتحت ہے، پارٹی سربراہ انتظامی معاملات میں خودمختار ہے جب کہ پارلیمانی پارٹی اسمبلی میں فیصلے کرنے میں با اختیار یے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت میں واضح ہو گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ ختم ہونا ضروری ہے، ایک سینئر پارلیمانی لیڈر نے صدارتی ریفرنس کے دوران پارٹیوں میں آمریت کی شکایت کی تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنے ارکان کو سننا ہو گا، بیرون ملک بیٹھے سیاسی لیڈر پارلیمانی ارکان کو ہدایات دیا کرتے تھے، آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کیا گیا، پارلیمانی پارٹی کی بھی اپنی منشا ہوتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔

فاروق ایچ نائیک

Advertisement

فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ ہماری کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کی جائے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ذرا ابتدائی کیس کو سننے دیں، باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے، آپ کو بھی سنیں گے لیکن ترتیب سے چلنا ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیٹھیں، امید ہے آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہو گی، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر کے دلائل

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کا 23 جولائی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم آئینی معاملہ ہے، تمام ابہامات دور کرنے کے لیے فل کورٹ بنانے کا یہ صحیح وقت ہے، پہلے فیصلہ دینے والے ججز ہی کیس سن رہے ہیں جس کی وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے۔،درست فیصلے پر پہنچنے کے لیے عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس کا، عرفان قادر سے پوچھا کہ کن نقاط پر فل کورٹ سماعت کرے ، عدالت کے سوالات کے تشکی بخش جواب ملے تو ضرور بات بنے گی، سابق صدور کے دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظر میں ہدایات پارلیمانی پارٹی کے سربراہ سے آنا ہوتی ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ ائین میں پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کا بتایا گیا ہے، دیکھنا ہے کہ کس کے اختیارات زیادہ ہیں۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا یہ تاثر کیسے ملا کہ پارلیمانی پارٹی یا ہیڈ کی بات ہوئی، جس پر عرفاق قادر نے کہا کہ یہ سوال تو آپ کا ہے جس پر یہ خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، قانونی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا مؤقف الگ ہو اور پارٹی ہیڈ کا مختلف تو پھر کیا ہو گا ؟

چیف جسٹس نے عرفان قادر کو آئین کی کتاب سے آرٹیکل 63 اے پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی دونوں کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر موجود ہے ، عرفان قادر نے کہا کہ میں بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہوں کہ یہ سوال کیا ہے، بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ کیا سوال ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ عدالت کو سن تو لیں، پ پہلے سنیں تو ہم کیا کہہ رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے آپ کو سننے میں مشکل پیش آ رہی ہے، اگلی بار عدالت کی بات کاٹی تو آپ واپس اپنی کرسی پر ہوں گے۔

وکیل دوست مزاری کا کہنا تھا کہ آپ ناراض ہو گئے تھے، عدالت کو ناراض کرنے نہیں آیا ، آپ جتنا بھی ڈانٹ لیں میں برا نہیں مناؤں گا، آئین کا آرٹیکل 14 شخصی وقار اور جج کے وقار کی بات کرتا ہے، جج کو حق ہے کہ وہ وکیلوں کو ڈانٹے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ سے احترام سے بات کر رہے ہیں، آپ آرٹیکل 63 اے کو ہمارے ساتھ پڑھیں، ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے، محترم کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ناراض نہیں ہیں،آپ دلائل دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ڈکلیریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

Advertisement

عرفان قادر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے، سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے جمہوری نظام خطرے میں آسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کیلئے کینسر کے مترادف ہے ، آئین میں سیاسی جماعت کے حقوق ہیں۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے کر رولنگ دی، جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں، مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔

جسٹس اعجاز الحسن 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے ، آرٹیکل 63 اے کا سادہ مطلب ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی سے آئے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کون سے حصے پر انحصار کیا؟ جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے پر فیصلے کے پیرا تھری پر انحصار کیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے ہی فیصلے پر انحصار کر کے ووٹ مسترد کیے، آپ اگر ڈپٹی اسپیکر رولنگ کا دفاع کر رہے ہیں تو آپ نے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تسلیم کر لیا، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو قبول کرکے ہی اس پر انحصار کیا، بس اب یہ تعین ہونا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو صحیح سے سمجھا یا نہیں۔

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ق لیگ ارکان نے کس کی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا تھا؟ عوام جسے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آئے تو عدالت نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اہم ہدایات ملی ہیں ان سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہدایات سے آگاہ اپنے وکیل کو کریں۔

وکیل حمزہ شہباز کے دلائل 

سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کے وکیل سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر وضاحت مانگ لی جس پر حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان روسٹرم آ گئے۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے،

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہو جائے گا، یہی نقطہ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی ہدایت اور ڈکلیریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟

منصور اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں درج ہے کہ پارٹی سربراہ کا کردار پارٹی کو ڈائریکشن دینا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل سے کہا کہ سوال کا براہ راست جواب دیں۔

وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا، آرٹیکل 63 اے کے مختصر فیصلے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی پر بحث موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے، پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، میرے نزدیک مختصر فیصلہ بڑا واضح ہے۔

Advertisement

سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں میں مداخلت کر سکتا ہے جس پر وکیل منصور اعوان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی سربراہ کا پارلیمانی پارٹی فیصلوں میں کردار ہے۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پہلے انتخاب میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا، منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دیں۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کا کیس مختلف تھا، یہاں تمام 10 ممبران نے ایک ہی امیدوار کو ووٹ دیا، ق لیگ کےکسی رکن نے شکایت نہیں کی کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کچھ اور ہدایات دی گئیں، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملیں جبکہ موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں، پارلیمانی پارٹی نے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر

ووٹنگ کرنے اور نہ کرنے کی ہدایات پارلیمانی پارٹی کا لیڈر دیتا ہے ، پارٹی پالیسی الگ چیز ہے وہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو شاید پالیسی بناتی ہو لیکن ووٹنگ کرنے یا ووٹنگ میں غیر حاضری ہدایات پارلیمانی پارٹی کا لیڈر دیتا ہے

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیکر رولنگ دی، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں، پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں،۔

Advertisement

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔

وکیل پرویز الہیٰ کے دلائل

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر بھی پوچھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر فیصلہ دیا، گزشتہ سماعت پر بھی عدالتی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعلی کا الیکشن ہوا، پرویز الٰہی کو 186 ووٹ پڑے، حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے، آرٹیکل 130 کے تحت پرویز الٰہی وزیر اعلی بنتے تھے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا، ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت کا خط نتائج کے بعد دکھایا، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ رولنگ کے مطابق ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ سنائے تاکہ غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہو، مستقل وزیر اعلیٰ نہ ہونے سے پنجاب کی معاشی صورتحال متاثر ہورہی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے نے ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بند کیا، سیدھا کیس ہے، یہ فیصلہ سنا کر کرائسز ختم کرنا چاہیے۔

Advertisement

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت کے خط سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا، ڈپٹی اسپیکر نے نتیجے کا اعلان کرنے کے بعد خط اسمبلی میں دکھایا۔

الیکشن کمیشن میں منحرف ارکان کے کیس میں وکیل تھا، الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی زبان زدعام تھی، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف اپیل اس کیس کیساتھ نہیں سنی جا سکتی، منحرف ارکان کی نشستوں پر الیکشن ہوچکا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے ضمنی الیکشن روکنے کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ آپ بتائیں فل کورٹ کیوں نہ بنائی جائے ، آپ دوسری سائیڈ کی فل کورٹ کی استدعا کو کیسے مسترد کریں گے ، دوسری سائیڈ نے فل کورٹ پر دلائل دئیے ہیں۔

جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ اس معاملے میں تو فل کورٹ کی ضرورت نہیں ، آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے ، پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹیرین پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینی ہوتی ہے ، آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں کے بعد رائے دے چکی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے ، پارلیمانی جمہوریت میں ایک شخص کو فیصلوں کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تفصیل سے دلائل نہیں سن ریے ، ہمیں فل کورٹ بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، کیا فل کورٹ بننا چاہیے یا نہیں۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ میری معروضات سن لیں اس نکتے پر بھی بات کروں گا۔

وکیل علی ظفر نے فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بینچ کی تشکیل ضروری نہیں، یہ بنچ پہلے بھی بڑے بڑے فیصلے کرچکا ہے ، حکومت چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز عبوری وزیراعلی زیادہ سے زیادہ دیر رہیں ، عدالت نے تحریک عدم اعتماد کیس چار دن میں ختم کر دیا تھا۔

Advertisement

علی ظفر نے کہا کہ دیگر مقدمات اس کیس کیساتھ نتھی کرنے سے صرف وقت ضائع ہوگا، سابق بار صدور کا آنا اور دلائل دینا سمجھ سے بالاتر تھا، منحرف ارکان کی اپیلیں اور نظرثانی اس کیس سے منسلک کرنا ذیادتی ہوگی، بحران ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے، نظر ثانی کی درخواستیں صرف 5 رکنی بینچ ہی سن سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التواء کیسز کم ہو رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مقدمات کا ڈید لاک کم ہو، ججز دوسرے کیسز سنیں اور عدالت پر زیرالتوا مقدمات کا بوچھ کم ہو، فل کورٹ کی تشکیل چیف جسٹس پر منحصر ہوتی ہے ، 15 کیسز میں استدعا کی گئی تھی لیکن اسی عدالت نے مسترد کیا۔

پرویز الہیٰ کے وکیل نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے ، 15 مقدمات میں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے سے انکار کیا ہے ، فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے ، کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف تین یا چار کیسز میں بنا ہے۔

وکیل چوہدری شجاعت کے دلائل

چوہدری شجاعت کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ یہی چاہتا ہوں ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ خیال کیا جائے کہ ڈپٹی اسپیکرنے غلطی کی تو صحیح کیا ہو گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے مختصر رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کا حوالہ نہیں دیا، ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ سے متعلق تفصیلی وجوہات میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا۔

Advertisement

سیکیورٹی کے سخت انتظامات 

اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب کے کیس سے متعلق سماعت کے موقع پرسپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور عدالت عظمیٰ میں تمام سیاسی رہنماؤں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔

کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے پولیس کی جانب سے ایکسپریس چوک کو گاڑیوں کے داخلے کے لئے بند کردیا گیا ہے اور ریڈ زون میں صرف سرکاری، میڈیا اور ممبران اسمبلی کی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہوگی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں جب کہ ڈپلومیٹک انکلیو جانے والے شہریوں کو سکیورٹی ڈویژن سے تصدیق کے بعد داخلے کی اجازت ہوگی ٹریفک کی روانی بحال رکھنے کے لئے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔

کمرہ عدالت نمبر ایک کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اور میڈیا کو کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخلے کی اجازت ہے جب کہ کمرہ عدالت نمبر ایک میں صرف کیس کےفریقین داخل ہوسکیں گے ، سپریم کورٹ کے روم نمبر6 اور 7 میں اسپیکرز کے ذریعے عدالتی کارروائی سنی جاسکے گی۔

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا مشاوری اجلاس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Advertisement

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے۔

انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی ہیں، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔

بعد ازاں چوہدری پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راں کے توسط سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

مذکورہ درخواست پر 23 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

Advertisement

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
 لاہور: شہری سے 17 لاکھ کی 4 وارداتوں میں ملوث سب انسپکٹر گرفتار
ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی، اعلیٰ سطح انکوائری کمیٹی متحرک
کراچی میں ای چالان کا آغاز، صرف 6 گھنٹوں میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان
بحیرہ عرب میں ڈپریشن کی تشکیل، کراچی میں تیز خشک ہواؤں کا امکان
آزاد کشمیر حکومت کی تبدیلی: مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس آج طلب
وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر