
روس نے مغرب سے علیحدگی کے لیے ایک اورقدم اٹھا لیا ہے۔
روسی اخبارماسکوٹائمز کے مطابق روس نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن منصوبے سے الگ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔
روس کی سرکاری خلائی ایجنسی روسکوسموس کے نئے سربراہ نے کہا ہے کہ روس آئی ایس ایس سے 2024 کے بعد علیحدگی اختیارکرنے کے بعد اس کا ہم پلہ اپنا خلائی اسٹیشن تیارکرے گا۔
ان خیالات کا اظہاریوری بوریسونے روسی صدرولادیمیرپیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خلائی پروگرام ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پراپنے تما م شراکت داروں کی ذمے داریوں کوسمجھتے ہیں، لیکن روس 2024 کے بعد اس منصوبے سے دست بردارہونے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پیوٹن کی خلائی صنعت مشکل صورت حال سے دوچارہے، ہم اس میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے پرکام کررہے ہیں۔ جس کے لیے ہمیں سب سے پہلے روسی معیشت کے ساتھ نیوی گیشن، کمیونیکیشن، ڈیٹا ٹرانسمیشن اور دیگرضروری خلائی خدمات فراہم کرنی ہیں۔
روسکوسموس نے آج روسی خلائی اسٹیشن کا نمونہ بھی پیش کیا ہے۔ ایک اہم روسی عہدے دارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایا ہے کہ اس خلائی اسٹیشن پرتقریباً 6 ارب ڈالرلاگت آئے گی۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو روسی اورامریکی خلائی اداروں کی جانب سے 1998 میں خلا میں بھیجا گیا تھا، تاہم، حالیہ چند برسوں میں ماسکواورواشنگٹن کے درمیان تعلقات تیزی سے بگاڑ کی طرف گئے ہیں۔
اس ماہ کے آغازمیں ناسا نے روس کے ساتھ آئی ایس ایس کے لیے پروازیں دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
روس کی جانب سے آئی ایس ایس سے دست بردار ہونے کا فیصلہ یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کے درمیان کیا گیا ہے، جس کی اہم وجہ مغرب کی جانب سے ماسکو کے خلاف عائد کی جانے والی متعدد پابندیاں ہیں۔
رواں ماہ کے آغازمیں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پرتین خلانوردوں کی جانب سے یوکرین مخا لف پروپیگنڈہ کرنے پر روسی خلائی ایجنسی کی سرزنش کی تھی۔
آئی آئی ایس سے جاری ہونے والی تصویرمیں یہ تینوں خلانورد مشرقی یوکرین میں روس نوازعلیحدگی پسند خطوں Luhansk عوامی جمہوریہ اورDonetsk عوامی جمہوریہ کا پرچم تھامے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان علاقوں کوصرف ماسکواورشام کی جانب سے ہی ایک خودمختارریاست کے طورپرتسلیم کیا جاتا ہے۔
ان تصاویرپرناسا نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس یوکرین پرحملے کی حمایت میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو سیاسی مقاصد میں استعمال کررہا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News