
عدالت نے مراد راس ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کوتادیبی کارروائی سےروکنےکی استدعا مسترد کردی۔
لاہورہائی کورٹ میں مراد راس کی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے طلبی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران عدالت نے ایف آئی اے کو تادیبی کارروائی سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر کے 14 ستمبر کو جواب طلب کرلیا۔
وکیل مراد راس نے مؤقف اپنایا کہ یہ ایک پولیٹیکل پارٹی کا معاملہ ہے، براہ مہربانی تادیبی کارروائی سے روکا جائے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے جواب دیا کہ عدالتیں موجود ہیں، اگرکچھ ایسا ہوا تو آپ آجائیں۔ ہمیں کسی پارٹی سے کوئی غرض نہیں، ہم نے قانون کے مطابق معاملے کو دیکھنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ آپ کو کیا خطرہ ہے؟
وکیل مراد راس نے جواب دیا کہ ہفتے کے روزانکوائری میں اتوارکیلئے طلبی کا نوٹس بھجوایا گیا اور انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کیے جانے کا خطرہ ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں، عدالتیں اب ہفتے اور اتوار کے روز بھی لگتی ہیں۔
وکیل مراد راس نے مؤقف اپنایا کہ پشاورہائی کورٹ نے اسی نوعیت کے کیس میں عبوری ریلیف دیا ہے جس پر جسٹس علی باقرنجفی نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ تو آپ پھر پشاورہائیکورٹ چلے جائیں۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے مراد راس کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
انٹرا کورٹ اپیل میں فیڈریشن، ایف آئی اے اور ڈپٹی ڈائریکٹرایف آئی اے میاں عامر اقبال کو فریق بنایا گیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ایف آئی اے نے ان اکاؤنٹس کی انکوائری شروع کی جن کو پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا۔ مراد راس کو صرف ایک اکاؤنٹ کی انکوائری میں طلب کیا گیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی اکاؤنٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوتا رہا ہوگا۔
مراد راس کے وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی ان اکائونٹس کو تسلیم کرتی ہے مگر یہ اکائونٹس رقم کی تقسیم کے لئے بنائے گئے تھے۔ 7 اکائونٹس رقوم کی تقسیم کے لیے بنائے گئے تھے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وفاق کا مراد راس کی پہلی درخواست پر کوئی جواب موجود نہیں ورنہ اس کیس کو اس کی بنیاد پرآگے بڑھاتے۔
عدالت نے ڈپی اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ جناب مرزا نصر احمد! آپ اس میں شق وارجواب داخل کروائیں۔
اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ سنگل بنچ کا 24 اگست کو پٹیشن خارج کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ موجودہ حکمران ایف آئی اے کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ہراساں کر رہی ہے۔
اپیل کنندہ نے مؤقف پیش کیا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اگلے روز وزیر داخلہ نے اسی فیصلے کی روشنی میں ایکشن لینے کا اعلان کیا۔
اپیل میں مؤقف پیش کیا گیا کہ وزیرداخلہ نے ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہے گئے “غیر قانونی اکاؤنٹس” پر تحقیقات کا حکم دیا۔ الیکشن کمیشن نے ایف آئی اے کو یہ معاملہ نہیں بھیجا۔
اپیل کنندہ کے مؤف کے مطابق ایف آئی اے نے تحریک انصاف کے ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی مہم چلاتے ہوئے طلبی کے نوٹسز جاری کئے۔ ایف آئی اے نے 20 اگست کو اپیل کنندہ کو نوٹس جاری کیا۔
اپیل میں استدعا کی گئی کہ لاہورہائی کورٹ طلبی کا نوٹس اورانکوائری کو کالعدم قراردے۔ عدالت ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کو تادیبی کارروائی سے روکے۔ عدالت حتمی فیصلے تک طلبی کے نوٹس پر حکم امتناعی جاری کرے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News