
بغاوت پر اکسانے کے کیس میں شہباز گل اشتہاری قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسمانی ریمانڈ کے خلاف شہباز گل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے اداروں کے خلاف بغاوت پراکسانے کے الزام میں شہباز گل کی 48 گھنٹے کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست پرکی۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کے بیان کا معاملہ اٹھایا جس پر قائم مقام چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ ہمیں پتا ہے ہم دیکھ لیں گے وہ الگ ایشو ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف عمران خان نے بیان دیا۔ عدالت نے جواب دیا کہ وہ ہمیں پتا ہے میڈیا پر فلیشں ہو چکا سارا پاکستان دیکھ چکا۔ میرے سامنے دو کیسز ہیں ابھی اس پر بات کریں۔
وکیل شہباز گل نے کہا کہ شہباز گِل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے۔
جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ پورے ملک کا واحد کیس نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کیسز تھے بعد میں بھی کیسز چلتے رہیں گے۔ ریمانڈ کے کیسز میں ایسی مثال نہ بنائیں۔ اسلام آباد تو نہیں لیکن لاہور اس طرح کے کیسز سے بھر جائے گا۔ ہائی کورٹ تو صرف اس قسم کے کیسز کیلئے ہی رہ جائے گی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہبازگِل کی گاڑی کے شیشے توڑے گئے جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس میں نہیں جا سکتا، کیا میں اب ٹی وی لگوا کر وہ ویڈیو دیکھوں؟
وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ شہباز گل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ وہ ڈرائیورکے پاس ہے۔ پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟
سلمان صفدر نے کہا کہ موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے، موبائل پولیس کے پاس ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہبازگل سے سازش کا پتا کرنا ہے۔
وکیل شہباز گل نے دلائل دیے کہ مجسٹریٹ نے خود آبزرویشن دی کہ ملزم کی کنڈیشن سیریس ہے۔ ایسے ہی ٹارچر پر ملزمان کی ڈیتھ ہو جاتی ہے۔ مجھے وکالت نامہ دستخط کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ اب اس کی طبیعت بہتر ہو رہی تو کل اس کی وڈیوز لیک کی گئیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم سب ان چیزوں سے ایمپریس نہیں ہوتے۔
وکیل شہباز گل نے دلائل دیے کہ ریمانڈ ختم ہو چکا ملزم کو دوبارہ ریمانڈ پر نہیں بلایا جا سکتا۔ جج نے ایک نیا ٹرینڈ بنایا کہ ملزم کو ریمانڈ پر دوبارہ بلا لیا۔ شہباز گل کو جب گرفتار کیا گیا موبائل ان کے پاس تھا۔ اگر پولیس نے وہ فون ریکوری میں نہیں ڈالا تو ان کی نااہلی ہے۔
سلمان صفدرایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ اب یہ دوبارہ اس موبائل کیلئے کیسے ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟ پولیس نے خود ایف آئی آر درج کی کہ موبائل ڈرائیور کے پاس ہے۔ اب یہ فون شہباز گل سے کیسے ریکور کیا جا سکتا ہے؟
وکیل شہباز گل نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ بڑی سازش ہوئی شہبازگل سے پتا کرنا ہے۔ ٹی وی پر سیاسی باتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ایسا کرتے ہیں ہم سب پھر نیشنل جیوگرافک لگا لیتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ وہ بات نہ کریں۔
اسپیشل پراسیکیوٹرنے کہا کہ کیس میں دوسرے ملزمان کی گرفتاری بقایا ہے جس پر عدالت نے پوچھا کہ کب پورا کریں گے وہ بقایا ؟ ابھی آپ نے کیا تفتیش کرنی ہے کیوں کسٹڈی چاہیے؟
اسپیشل پراسیکیوٹرنے دلائل دیے کہ ہم نے موبائل فون ریکورکرنا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا شہباز گل اسٹوڈیو میں تھے یا فون پرتھے جب ٹی وی پربولے؟
تفتیشی افسرنے بتایا کہ شہباز گل لینڈ لائن نمبر سے فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ لینڈ لائن نمبربنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کا تھا۔
عدالت نے پوچھا کہ کال لینڈ لائن نمبرسے ہوئی تو موبائل کیوں چائیے؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ شہباز گل نے تفتیش میں کہا وہ موبائل سے دیکھ کر پڑھ رہے تھے۔ جو ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا گیا، وہ بھی برآمد کرنا ہے۔ شہباز گل کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرانا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہاں اسلام آباد میں ایسی سہولت موجود ہے؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ اسلام آباد میں نہیں، لاہورمیں پنجاب فرانزک لیب میں یہ سہولت موجود ہے۔
وکیل شہباز گل نے کہا کہ یہ پولی گرافک ٹیسٹ تو جیل میں بھی کرایا جا سکتا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ جسمانی ریمانڈ پندرہ دن کا ہوتا ہے جو مختلف مراحل میں بھی دیا جا سکتا ہے،
عدالت نے پوچھا کہ اگر پندرہ دن میں تفتیش مکمل نہ ہو تو کیا اس کے بعد بھی ریمانڈ مل سکتا ہے؟
اسپیشل پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ پندرہ دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا جس پرعدالت نے کہا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی؟
قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ دوران تفتیش کوئی ملزم بیمار ہو جائے تو کیا ہو گا؟ اسپیشل پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ بیمار اور زخمیوں کے لیے بھی رولز موجود ہیں، زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔
شہباز گل کے لیے آزاد میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی درخواست
شہباز گل کیلئے آزاد میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی درخواست میں وکیل بابراعوان نے درخواست پر معاونت کے لیے عدالت سے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ شہباز گل 14 روز سے کسٹڈی میں ہی ہیں۔ جس دن گرفتارکیا جاتا ہے اسی دن سے کسٹڈی شروع ہو جاتی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بابراعوان صاحب آپ کا کیس تو ریمانڈ نہیں الگ ہے۔ آپ تو میڈیکل بورڈ سے متعلق درخواست پر دلائل دیں۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ میں آپ کا سینئر وکیل ہوں اس لیے اُس پر بھی بات کی جس پرعدالت نے کہا کہ آپ میرے نہیں ہیں، ویسے آپ سینئر ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News